تحریر : میر افسر امان
تین دن سے پورا میڈیا کراچی پر فوکس کر رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے دفتر٠ ٩ پر رینجرز کا چھاپہ وہاں سے ٥ دہشت گردوں کی گرفتاری، عدالت سے سزا یافتہ افراد جس میں عبید عرف کے ٹو،فرحان شبیر عرف ملا، ولی خان بابر کے قتل میں سزا یافتہ فیصل عرف موٹا اور مہاجرقومی موومنٹ سے منحرف عامر خان سمیت کئی افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کو عدالت میں پیش کیا گیا اور قانون کے مطابق کچھ کو ٩٠ دن کے لیے رینجرزاور کچھ کو ١٤ دن کے ریمانڈ کے تحت پولیس کے حوالے کرد یا گیا۔ نیٹو کنٹینر زسے چورایا گیا اسلحہ کی برآمدگی او رسینکڑوں دہشت گردوں کی گرفتاری کی خبروں سے سارا میڈیا بھرا پڑا ہے۔ خوف زدہ الیکٹرونک میڈیا پر اینکر پرسن اب ذرا کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اب نامعلوم افراد کی گردان سے ہٹ کر معلوم افراد کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس میں ایک خاص بات جو اکثر اینکر پر سن کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں سب سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ ہیں۔ یہ بات وہ سپریم کورٹ کے حوالے سے کرتے ہیں جو سپریم کورٹ نے کراچی کے بدامنی کیس ازخود نوٹس کے مقدمے کے تحت کہی تھی۔
جس میں متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے نام سر فہرست تھے۔ عسکری ونگ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اس میں جماعت اسلامی کا نام نہیں لیا تھا۔ اُس نے جماعت اسلامی کے ایک فرد کانام بھتہ خوری کے حوالے سے لیا تھا۔ جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ گو کہ جماعت اسلامی جیسی اصولی اور نظریاتی جماعت جس کی ایمانداری کی قسم اُس کے مخالف بھی کھاتے ہیں جو کراچی پر تین بار راج بھی کر چکی ہے ایک بہت بڑا دھجکا تھا۔ اسی لیے دوسرے ہی دن جماعت اسلامی کے کراچی مرکز میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اُس شخص کو پیش کیا تھا جس کا نام سپریم کورٹ میں لیا گیا تھا۔ وہ شخص لیاری کے ایک حلقے سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ناظم منتخب ہوا تھا۔ اُس نے ہنگامی پریس کانفرنس میںواقعے کی تفصیل بتا تے ہوئے ایک پولیس افسر کا نام لیا تھا جس سے اُس کی ذاتی دشمنی تھی۔ اُس نے بھتہ خوری کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ پولیس افسر نے دشمنی کی وجہ سے اُس کا نام بھتہ خوروں کی لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی اس بات کوعدالت میں لے کر گئی تھی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔عدالت میں وہ پولیس افسر اپنے جھوٹے الزام کو ثابت نہ کر سکا تھا۔
اسی غلط بات کو جو ایک پولیس افسر نے خاص دشمنی کی وجہ سے کہی تھی جو صرف بھتہ خوری کے حوالے سے بھی غلط تھی جس کا جماعت اسلامی کے عسکری ونگ سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا جس کو عدالت نے بھی صاف کر دیا تھا۔ اکثر کچھ اینکر پرسن بغیر تحقیق کئے غیر دانستہ طور پر ایم کیو ایم اور دوسری عسکری ونگ رکھنے والی کراچی کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ٹوٹل پورا کرنے کے لیے اکثر و بیشتر جماعت اسلامی کا نام بھی دہراتے رہتے ہیں۔ مذیداس بات کو امیر جماعت اسلامی کراچی حافط نعیم الرحمان نے بھی کل کے ٹی وی ٹاک شو میں تفصیل سے صاف کیا۔ اب جب یہ بات وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے اس لیے ہم ٹی وی اینکر پرسن جن کی گفتگو اکثر و بیشتر حقائق پر مبنی ہوتی ہے سے درخواست کرتے ہیں کہ اس بات کو بھی نوٹ کر لیں اور برائے مہربانی آیندہ صرف ٹوٹل پورا کرنے کے بجائے سچ بولیں اورجو کچھ سپریم کورٹ نے کہا ہے وہی کہیں۔ جماعت اسلامی کا کراچی میں کوئی بھی عسکری ونگ نہیں ہے وہ ایک پُرامن جمہوری جد و جہد پر یقین رکھنے والی سیاسی اور دینی جماعت ہے۔ رہا ایم کیو ایم کا معاملہ تو وہ واقعی ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے سیاست کا لبادہ اُوڑ رکھا ہے ۔ اس کا عسکری ونگ ہے جو لوگوں کو قتل کر رہا ہے۔اس کااعلان برطانیہ میں مفاہمتی پالیسی ایگریمنٹ، جن میں( ن)لیگ،پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاکستان کی دوسری قومی سیاسی اور مذہبی پارٹیاں شامل تھیں نے اعلان کیا تھا کہ ایم کیو ایم ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس سے کسی قسم کا تعلق نہیںرکھنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے خلاف کئی بار فوج نے آپریشن بھی کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف ہی آپریشن کیا جاتا ہے کسی پراُمن سیاسی پارٹی کے خلاف تو نہیں کیا جاتا۔ فوج کے ساتھ جتنے بھی پولیس والے آپریشن میں شامل تھے ان کو چن چن کر ختم کر دیا گیا۔ کسی میڈیا کے فرد نے ان کی غلط پالیسیوں پر بات کی تو اسے مار دیا گیا جیسے ولی بابر خان کا معاملہ ہے۔ اس کا مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا گیا۔ اس کے گواہوں کو بھی چن چن کر مار دیا گیا۔ کراچی میں ١٢ مئی کو ظلم کی داستان رقم کی۔ اس کا مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا گیا ۔کراچی میں کورٹ کو دہشت گردوں نے گھیر لیا تھا۔ وکیلوں کو گن پائو ڈر چھرک کرجلا دیا گیا۔جی آئی ٹی رپورٹ کے مطابق بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ کی فیکٹری میں بھی گن پائوڈر چھڑک کر ٢٥٩ مزدورں کو زندہ جلا دیا گیا۔ پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے کبھی بھی اپنے کارکنوں سے اعلانیہ نہیں کہاکہ ٹی وی اور وی سی آر بیچو اورکلا شنکوف خریدو۔ پھر اس کے بعد سندھ کے شہروں میں قتل عام شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ جس کسی نے اختلاف کیا اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا
حقدار ہے کا نعرہ ایجاد کیا گیا۔ دھونس دھاندلی اور کلا شنکوف کے زور پر جھرلو الیکشن جیتنے کا رواج ڈالا۔ ٢٥ سال سے حکومت میں شامل رہنے کے باوجود کراچی کے مسائل حل نہ کیے ۔ہجرت کر کے آنے والوں نے ہمیشہ دلیل کی بات کی تھی پاکستانی معاشرے نے اُن کو عزت و احرام کا مقام دیا ہوا تھا مگر الطاف حسین صاحب نے اُن کے ہاتھ میں کلا شنکوف تھما دی ہے۔ اِس کے علاوہ کراچی میں ٹار گٹڈ آپریشن سب پارٹیوں کی مشاورت جس میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی اور کابینہ کی منظوری کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ اس کے تحت رینجرز کو امن قائم کرنے اور دہشت گردوں کو پکڑ کر عدلیہ کے حوالے کرنے کے قانونی اختیارات دیے گئے ہیں ۔ اس کے تحت رینجرز نے لیاری سے کافی حد تک دہشت ختم کی گئی۔ عزیر بلوچ کو دبئی سے واپس لانے کی کی کوشش کی جارہی ہے۔طالبان دہشت گردوں کوپکڑا جا رہا ہے۔ ہر روز کلعدم تنظیموں کے دہشت گرد گرفتار ہورہے ہیں۔ کور کمانڈر کراچی نے بھی رینجرز ہیڈ کواٹرز میں پکڑے گئے اسلحہ کے معائنے کے دوران رینجرز کو بلا تفریق د ہشت گردوں کو پکڑنے کی ہدیات دی ہیں
اب اگر ٩٠، ایم کیو ایم کے ہیڈکواٹر میںمیں کوئی دہشت گرد چھپا ہوا تھا اور انٹیلیجنس کی رپورٹ پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کیا گیا تو ایم کیو ایم کو قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی مدد کے بجائے دو دن کراچی شہر کو حسب معمول خوف حراس پیھلا کر ذبردستی بند کروا دیا گیا۔گاڑیاں جلا دی گئیں۔ تعلیمی ادارے ، ٹرانسپورٹ اور کاروابار زندگی کو بند کرو دیا گیا۔ الطاف حسین صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردوں کو ٩٠ پر چھپنے کے بجائے کہیں دوسری جگہ چھپ جانا تھا۔ میں نہیں برطانیہ میں ٢٥ سال سے رہ رہاہوں۔ الطاف حسین صاحب نے یہ بھی کہا ان دہشت گردوں کے متعلق رابطہ کمیٹی کے کچھ ارکان کو بھی پتہ تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے اگر ایم کیو ایم پاکستان میں سیاست کرنا چاہتی ہے تو دہشت گردی چھوڑ دے۔ عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرے ۔ اِسے ہر حالت میں دہشت گرد ی چھوڑنی ہو گی ورنہ اب مکافات عمل کے لیے بھی تیار رہناہو گا۔
تحریر : میر افسر امان