سیرو سیاحت آج کے دور میں دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے۔ دنیا کے سبھی ممالک کے لوگ اب گوگل پر سرچ کرکے سیاحت کےلیے نکل پڑتے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کےلیے دنیا بھر میں سیاحت کا عالمی دن ستمبر کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ سیر و سیاحت دُنیا کی سب سے زیادہ ترقی کرنے والی صنعت ہے اور یہ تمام دُنیا کی گھریلو صنعتوں کے تقریباً 10 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔
ایک مُلک کی معیشت سیر و سیاحت پر کس طرح انحصار کرتی ہے؟ اس کےلیے بہاماس کی مثال پر غور کیجیے: یہ ایک سا مُلک ہے جو سیکڑوں چھوٹے بڑے جزیروں کی شکل میں خلیج میکسیکو کے دہانے سے لے کر امریکا میں فلوریڈا کے درمیان اور کیوبا تک پھیلا ہوا ہے۔ بہاماس میں کوئی وسیع تجارتی زرعی رقبہ اور صنعتی خام مال نہیں۔ لیکن ان جزائر میں گرم موسم، شاندار گرم مرطوب ساحل، لگ بھگ چار لاکھ ملنسار لوگوں کی چھوٹی سی آبادی اور امریکا سے قریب ہونا، یہ سب مل کر اسے سیاحت کی دنیا میں منفرد مقام عطا کیے ہوئے ہیں۔
سیر و سیاحت اور تصویر کشی کے دلدادہ لوگوں کےلیے قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان ہمیشہ سے ایک ترجیحی منزل رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ شمالی علاقہ جات کے ہوٹل ہمہ وقت غیر ملکیوں سے بھرے رہتے تھے۔ سکردو کے بازاروں میں اکثر اوقات پولینڈ اور جرمنی کے لوگ نظر آتے تھے کہ انہیں کے ٹو سر کرنا ہوتا تھا۔ برطانوی سیاح زیادہ تر کاغان، ناران اور بابوسر کے اردگر پھیلے علاقے کی تصویر کشی میں محو دکھائی دیتے تھے۔
پھر ایک پرائی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے سارا منظر ہی گہنا دیا۔ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر غیر ملکی سیاحوں کو رات کے اندھیرے میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ ایک وقت آیا کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد بالکل ختم ہوگئی۔ مینگورہ، سوات اور کالام، دہشت گردوں کے قبضے میں چلے گئے۔ ہوٹل سیاحوں سے خالی ہوگئے اور جھیلیں خوش نما پرندوں سے۔
کچھ عرصہ یہ حالات رہے اور پھر قدرت کو ہم پر رحم آیا اور پاکستانی سیاحت کے افق پر چھائی یہ طویل رات دھیرے دھیرے روشن صبح میں تبدیل ہوگئی۔ صرف گلگت بلتستان کے علاقائی محکمہ سیاحت نے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سال 2017 میں 10 لاکھ سے زائد افراد، سال 2016 میں لگ بھگ 7 لاکھ، جب کہ سال 2015 میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ سیاحوں نے اس علاقے کا رخ کیا تھا۔ پاکستان میں سیاحت کے دوبارہ عروج کی ایک بہت بڑی وجہ عیدالفطر کا گرمیوں کے دنوں میں آنا ہے۔ عیدالفطر کےلیے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر تقریباً ایک ہفتے کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ایسے میں لوگوں نے پچھلے کچھ برسوں میں گرمی کی وجہ سے عید کے خوبصورت ایام کو خاندان کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں گزارنے کو رواج دیا ہے۔
پوٹھوہار ریجن کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والوں سیاحوں کی پہلی منزل کوہ مری ہی ہے۔ دور دراز سے تھکے ہارے آئے لوگوں کو شب بسری کےلیے کمرہ چاہیے ہوتا ہے اور اس کمرے کےلیے پھر وہ ہوٹل مالکان کی صوابدید پر ہوتے ہیں کہ کون کتنی بڑی گاڑی میں آیا ہے تو اسے کتنا چونا لگایا جائے۔ عید کی شام مری پر جس طرح سیاح یلغار کرتے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے بہت پہلے ہی ہوٹل مالکان اسے نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جو مرضی کرلو، ان لوگوں کو تو یہاں آنا ہی ہے تو کیوں نہ انہیں جی بھر کر لوٹا جائے۔
حالیہ دنوں میں ’’بائیکاٹ مری‘‘ کی مہم سوشل میڈیا پر بہت جوش و خروش سے جاری ہے اور اس کی وجہ ایک سال پرانی ویڈیو ہے جو وائرل ہوچکی ہے۔ یہ ایک بدقسمتی ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ہوٹل مالکان کا سیاحوں کے ساتھ رویہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ من مانی قیمتوں پر کھانا، چائے، لانڈری وغیرہ کی سہولیات سے مستفید ہوں۔ کیمپنگ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ اسکرپٹ کے مطابق سیاحوں کو مقامی لوگوں کی مدد سے کیمپنگ سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار کے ایام میں شب بسری کا کرایہ باقی دنوں کی نسبت دوگنا کردیا جاتا ہے۔ کمرہ دیتے وقت ہنی مون کےلیے آئے جوڑوں کو نکاح نامہ کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔
مری میں مہنگے ہوٹل جی پی او چوک کے دائیں بائیں میں واقع ہیں جہاں ایک رات قیام کا خرچہ 5000 سے 10000 کے درمیان وصول کیا جاتا ہے جب کہ آپ کو مری میں کم از کم بھی 3000 روپے کے بدلے ایک رات رکنے کی جگہ میسر آسکتی ہے لیکن اس کا فاصلہ جی پی او چوک سے تقریباً ایک کلومیٹر ہوگا۔ اس کا موازنہ اگر ہم مکہ مکرمہ میں موجود حرم پاک سے ایک کلومیٹر دور ہوٹل کے نرخوں سے کریں تو فرق واضح نظر آئے گا کہ وہاں آپ کو ایک کمرہ تقریباً 1500 پاکستانی روپوں میں (سوائے رمضان کے) بہ آسانی ایک رات کےلیے مل جائے گا۔ اس موازنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سوچا جائے کہ اگر مکہ مکرمہ میں جہاں ہمہ وقت اتنا ہجوم موجود ہوتا ہے اور واقعتاً تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، اگر وہ لوگ اتنا سستا کمرہ دینے کے بعد کچھ نفع کما رہے ہیں تو مری کے ہوٹل مالکان کا منافع کتنے فیصد تک ہوتا ہوگا؟
قدرت کی طرف سے بہترین سیاحتی مقامات پاکستان کو تحفتاً ملے ہیں لیکن پچھلے ایک عشرے سے غیر ملکی سیاحوں کی پاکستان میں آمد چند سو تک محدود ہے جب کہ ہمارے سیاحتی مقامات میں اتنی کشش ہے کہ ہم ملک کا ایک صوبہ صرف سیاحت سے ہونے والی آمدن سے چلا سکتے ہیں۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ سیاحوں سے بدتمیزی کرنے والے ہوٹل مالکان اور ملازمین کو بے نقاب کیا جائے۔ لیکن کسی بھی علاقے کا بائیکاٹ کرکے ہم اپنے ملک کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔
سیاحوں کو درپیش مسائل حل کرنے کےلیے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرز کو پابند کیا جائے کہ وہ مختلف ہوٹلوں میں موجود سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے فی رات کرایہ جات مقرر کریں اور ان کرایہ جات کی لسٹ کی ہر ممکنہ حد تک تشہیر کی جائے تاکہ سیاح لٹنے سے بچ سکیں۔ حکومتی نگرانی میں ہوٹل مینیجرز کےلیے وقتاً فوقتاً مہمان نوازی کے کورسز کروائے جائیں۔ کیمپنگ سائٹس کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے تاکہ قدرتی مناظر کے دلدادہ لوگ شہر کے دھوئیں اور ٹریفک کے شور سے دور خوبصورت مناظر کو اچھی طرح اپنی یادوں میں سمیٹ سکیں۔ کیمپنگ سائٹس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہوٹل مالکان کے من مانی والے رویّے کا بہت حد تک توڑ کیا جاسکے۔