تحریر: شاہ فیصل نعیم
اردگرد پھیلے ہوئے پہاڑوں کے نشیب و فراز اور ان پر تاحدِ نظر پھیلی ہوئی خوبصورتی دیکھنے والوں کے لیے ایک حسین منظر پیش کرتی ہے دور دراز سے سیاح اپنے ذوق کی تسکین کے لیے یہاں آتے ہیں اور چار سو بکھرے ہوئے قدرتی حسن کے مزے لوٹتے ہیں۔
اسی منظر میں کوئین گیلری کے سامنے چوبی کی بنی ہوئی عمارت آنے والوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتی ہے اس عمارت میں داخل ہونے کے لیے آپ سے آپ کے خاندان، مقام و مرتبہ، رنگ ونسل، ذات پات، ثروت، مذہب اور ملک کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا اس عمارت میں داخل ہونے کے لیے وزیر، مشیر یا کسی بھی ملک کے بڑے سے بڑے عہدِدار کو بھی اُسی عمل سے گزرنا پڑتا ہے جس سے ایک عام انسان گزرتا ہے۔
جب ہم عمارت میں داخل ہو رہے تھے تو ایک عام سے کپڑوں میں ملبوس شخص دروازہ پکڑے کھڑا تھا اور ہر آنے والے کوویلکم کہہ رہا تھا ۔عمارت کی تعمیر یدطولیٰ رکھنے والے فنکار کے فن کو آشکار کر رہی تھی پور ی عمارت کو کمپیوٹر سسٹم سے کنٹرول کیا گیا تھاوہی دروازہ پکڑنے والاشخص ہماری رہنمائی کر رہا تھا جب ہم عمارت سے باہر آئے تو ہما رے ساتھ موجود آفیسرز نے کہا کہ آپ جلدی سے ایک گروپ کی شکل میں کھڑے ہو جائیں سکاٹ لینڈ کے وزیرِقانون آپ کے ساتھ تصویر بنوانے آرہے ہیں میںامید کر رہا تھا کہ ابھی شور مچاتی ہوئی گاڑیوں کا ایک قافلہ آئے گا کوئی دس بیس گاڑیا ں آگے ہو ں گی اور دس بیس پیچھے درمیان میں وزیر صاحب کی گاڑی ہو گی وزیر صاحب جلدی سے گاڑی سے اُتریں گے اور اردگرد موجود لوگوں کو درخورِاعتنا نہیں گردانیں گے جلد ی سے تصویر بنوائیں گے اور چلتے بنیں گے لیکن میر ی ساری امیدوں پہ پانی پھر گیاجب وہی دروازہ پکڑنے والا شخص ہمارے درمیا ن آکھڑا ہوا ہمارے انگشتِ بدنداں ہونے کے لیے یہی کافی تھا۔یہ سکاٹش پارلیمنٹ کا ایک منظر تھا سکاٹ لینڈ جہاز سازی کی صنعت میں نما یاں مقام کا حامل ہے اسکی دن دوگنی رات چوگنی ترقی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔
آج ہم اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں کہ الہی ہم مسلمان ہیں ہم افضل ہونے کے باوجوداقوامِ عالم کی صف میں پیچھے کیوں رہ گئے؟چودہ سو سال پہلے وضع کیا ہوا قانونِ قدرت قرآن کے سینے میںمن و عن محفوظ ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اُس نے محنت کی ۔یہاں اللہ تعالیٰ نے مذہب کی کوئی پابند ی عائد نہیں کی یہاں یہ نہیں کہا کہ صرف مسلمانوں کو ہی مقام و منسب سے نوازا جائے گابلکہ یہاں پر اس منصفِ اعلیٰ کا پیمانہ ِانصاف ایک جیسا ہے۔
آج اگر ہم دعائیں مانگتے رہیں لیکن محنت نا کریں تو کچھ حاصل نہیں ہو گا محنت کو ترک کر کے عیش وعشرت میں کھو جانے والے لوگ دنیا کے لیے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں جب تک مسلمان محنت کرتے رہے دنیا ان کی عظمت کا لوہا مانتی رہی لیکن جب انہوں نے محنت چھوڑی تو ثریا سے آسمان نے انہیں زمین پر دے مارا۔آج کے نام نہاد علماء جو مذہب کو ڈھال بنا کر اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں جومسلمانوں میں اس طریق کی ترویج کر رہے ہیں کہ اے اسلام کے ماننے والو! تمہا را اس دنیا سے کیا سروکار ہے ؟تم تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہوئے تسبیح،مصلا اور لوٹا اُٹھائو اور جنگلوں کی سمت نکل جائواللہ کی محبت میں یہ دنیا تیاگ دو۔میںپوچھتا ہوں کہ کیا حضور ۖ اور صحابہ سے بڑھ کر کوئی اللہ کی عبادت کرنے والا تھا اس دنیا میں ؟انہوں نے تو دنیا تیاگ نہیں کی تھی وہ توجنگلوںمیں نہیں گئے تھے،گھر بار،بیوی بچوں اور والدین کو چھوڑ کر۔
انہوں نے تو دنیا کو نیا اندازِزندگی دیا،معاشرے کو نئی جہتوںسے روشناس کروایا۔کسی بھی کامیاب سلطنت کا نظام اٹھا کر دیکھ لیں وہ حضورۖسے وضع کیے ہوئے قوانین سے ہی روشنی پارہا ہوگاان کا نظامِ عدل حضرت عمرفاروق کے دیئے ہوئے قوانین پر ہی مبنی ہو گا چاہے ان کے جوتے پھٹے ہوئے ہی کیوں ناہوں ان سے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں لزرتی ہوں گی ۔آج اقوامِ مغرب کی ترقی مسلمانوںکے اطوارِزندگی کو اپنانے کے باعث ہے لیکن ہماری ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے ہم اپنا وقار ان کی جھولی میںڈال کر بدلے میں ان سے صرف بے حیائی اور اسلامی معاشرے کونیست و نابو د کر دینے والی لعنتیں لے رہے ہیں۔
پھر یہ غوغا ہے کہ ساقی لا شرابِ خانہ ساز
دل کے ہنگامے کر ڈالے مئے مغرب نے خاموش
یاد رکھو ! دعائوں اور طاقت میں سے جیت ہمیشہ طاقت کی ہوتی ہے آپ محنت نہیں کریں گے تو آپ جیت جائیں گے ؟ایسا کبھی نہیں ہو گا۔جب چنگیز خان نے بغداد پر حملہ کیا تھا تو چند لوگوں کو زندہ چھوڑ دیا اور ان سے کہا کہ تم ان مردوں کی قبروں پر بیٹھو اور مانگتے رہو دعائیں دیکھتا ہوں تم مجھے کتنا گزند پہنچاتے ہو ؟تو تاریخ گواہ ہے کہ جیت طاقت والوں کی ہی ہوئی دنیا طاقت کا لوہا مانتی ہے اور مانتی رہے گی ،رسوائی اور ناداری کمزوروں کا مقدر بنتی رہی ہے اور بنتی رہے گی ۔آج اگر ہمیں دنیا میں اپناکھویا ہوا وقار دوبارہ پانا ہے تو ہمیں اپنے آبائو اجداد کی قائم کردہ سنہر ی روایات اور محنت کی روش کو اپنانا ہو گا اسی میں ہماری بقا ہے۔
نا سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہم نشین وطنو!
تمہاری داستان تک نا ہو گی داستانوں میں
تحریر: شاہ فیصل نعیم