تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
پاکستان بھر میں دن بدن ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے، جس میں لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا جہاں ٹریفک حادثات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال اوسطاً تیس ہزار کے لگ بھگ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں، جبکہ بعض رپورٹوں کے مطابق تقریباً سترہ ہزار سے زائدافراد ہر سال حادثات کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں اور 40 ہزار سے زاید لوگ زخمی ہو تے ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب میںسال گزشتہ 1 لاکھ67 ہزار حادثات میں 11 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 9 ہزار کے قریب لوگ معذور ہوئے۔ حادثات میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد نوجوان نسل کی ہے۔ ہر جگہ ہمیں نہ صرف حادثات کثیر تعداد میں ہوتے نظر آتے ہیں، بلکہ تمام حادثات کی وجوہات بھی یکساں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات ہونا ایک معمول کی بات ہے اور ٹریفک حادثات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کبھی بھی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔
‘وفاق المدارس ” نے ٹریفک قوانین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا احاطہ ایک مضمون میں کیا۔ یہ مضمون مولانا محمد تقی عثمانی کا تحریر کردہ ہے۔ مضمون نگار کے خیال میں ٹریفک قوانین کو دین سے الگ کوئی چیز سمجھنا اور انکی پاسداری نہ کرنا غلط سوچ ہے ،اس لئے کہ یہ قوانین انسانی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں اس اعتبار سے انکی پابندی شرعا واجب ہوتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے والا اسلامی نقطہ نظر سے قانون شکنی ، وعدہ خلافی ، ایذارسانی اور سڑک کے ناجائز استعمال جیسے چار بڑے گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے اور اس قسم کی بے قاعدگی فساد فی الارض کی تعریف میں آتی ہے اس لئے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ یہ باتیں ہمارے دین نے ہمیں سکھائی ہیں، ہمیں ان زریں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے
بیرون ممالک رہنے والے احباب بتاتے ہیں ان ممالک میں ٹریفک قوانین نہایت سخت ہیں ان پرعمل کرنا ہر ایک کے لیے لازم ہے۔مگر افسوس کہ ہرشعبے کی طرح یہاں بھی کوئی توجہ دینے والا نہیں ۔ایسے میںادارہ علوم ابلاغیات کے طلباء کی جانب سے ٹریفک حادثات میں کمی لانے کے لیے اچھی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔یقینا حکومت یہ اقدامات کر کے روز بروز ضائع ہوتی قیمتی انسانی جانیں بچا سکتی ہے۔
1۔ ٹریفک قوانین کی پابندی ڈرائیور حضرات کو ٹریفک قوانین کی پابندی پر سختی سے مجبور کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والے کو ہر قیمت پر سزا دی جائے۔ 2۔ جب بھی کوئی گاڑی سڑک پر آئے تو وہ فنی طور پر فٹ ہونی چاہئے۔ ناقص’ سست رفتار اور خستہ حال گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکا جائے۔ 3۔ ڈرائیور کا لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کم سن بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلا رہے ہوتے ہیں اور ان کے والدین اور بزرگ بڑے فخر کے ساتھ ان کے ہمراہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ 4۔ موٹر سائیکل رکشوں کے نابالغ اور نومولود ڈرائیوروں کے پاس کسی طرح کا لائسنس یا گاڑی کے کاغذات نہیں ہوتے جبکہ ٹریفک وارڈنز ان موٹر سائیکل رکشوں کے ڈرائیوروں سے کوئی تعرض نہیں کرتے ٹریفک کنٹرول کرنے والے اداروں کو اس لاقانونیت کا نوٹس لینا چاہئے اور سواریوں کو بھی اس رویہ کی حوصلہ شکنی کرنا چاہئے۔ 5۔سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کے دوران گاڑیوں کا ایک دوسری کو غلط طور پر کراس کرنا جو عام ہے جو حادثات کی وجہ بنتا ہے۔ بڑی اور SLOWٹریفک خاص طور پر ٹریکٹر ٹرالی سڑک کے درمیان چلتے ہیں اور تیز رفتار ٹریفک کو راستہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے انہیں غلط طور پر کراس کرنا پڑتا ہے۔ راستہ نہ دینے اور غلط طرف سے دوسری گاڑی کو کراس کرنے والے دونوں ہی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں روک تھام کے لیے لائحہ عمل طے ہونا چاہئے۔
6۔ ٹریفک پولیس یا ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے اداروں کے افراد کی تعداد ایک حد تک ہی بڑھائی جا سکتی ہے۔ حکومت کو ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے عملہ کو بہتر ٹریننگ اور جدید طریقہ کار اپنا کر ان کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنا چاہئے۔ جس سے بغیر زائد اخراجات کنٹرول کرنے کیلئے عملہ کو بہتر ٹریننگ اور جدید طریقہ کار اپنا کر ان کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنا چاہئے۔ جس سے بغیر زائد اخراجات مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں۔ 7۔ موجودہ مشینری کے دور میں گدھا گاڑیوں’ گڈوں’ تانگوں یا پیٹر انجن سے وجود میں آنے والی گاڑیوں کی بھرمار’ ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان کو روکنے کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ ضرورت ہے کہ ایسی ٹریفک کو بھی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دی جائے اور ان سے متعلقہ قوانین پر عملدرآمد کیا جائے۔ 8۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی گاڑیوں اور ٹرکوں وغیرہ کے ڈرائیور نہایت تیز رفتار اور بے ہنگم انداز میں ڈرائیونگ کرتے ہیں اور روڈ پر موجود دوسری چھوٹی ٹریفک کو ناجائز طور پر ہراساں اور پریشان کرتے ہیں۔ کارکردگی کو مانیٹر کرنے کیلئے بھی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
9۔ حکومت فراخ دلی سے نئی سڑکیں تعمیر کر رہی ہے مگر پہلے سے تعمیر شدہ سڑکوں کی مرمت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اگر سڑکوں کو شکست و ریخت کے ساتھ ہی فوری مرمت کی جائے تو نہ صرف حادثات اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ سے بچا جا سکتا ہے بلکہ سڑکوں کی عمر بڑھا کر ایک کثیر سرمایہ بچا کر دوسرے کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے اور عوام کے مسائل کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ 10۔ٹریفک پولیس کے اہلکارں کے لیے ماضی میں کلاسیں شروع کی گئیں تھیں جن میں عوام سے اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تاکید ہوتی تھی،وہ سلسلہ پھر سے شروع ہونا چاہیے۔عوام اور ٹریفک پولیس میں کمیونکیشن گیپ دور ہونا چاہیے۔
تحریر : فرخ شہباز وڑائچ