تحریر : محمد عرفان چودھری
ٹریفک وارڈنز کا کام ہے سگنل پہ کھڑے ہو کر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنا مگر پچھلے چند سالوں سے ٹریفک وارڈنز کے شائد سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (S.O.P) میں کچھ تبدیلیاں کر دی گئی ہیں جن کی وجہ سے اُنہوں نے اب ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کی بجائے نہتے شہریوں پر بیہمانہ تشدد کرنے کو اپنا سٹینڈر بنا لیا ہے آئے روز کوئی نہ کوئی شہری ٹریفک پولیس کے ہتھے چڑھا ہوتا ہے جنہیں ٹریفک اہلکار مل کر جنگلی لگڑ بگوں کی طرح نوچ رہے ہوتے ہیں چند دنوں میں لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں کئی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ٹریفک اہلکاروں کو شریف شہریوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک بزرگ شہری جو کہ عمر سے تقریبََا ساٹھ یا ستر سال کے ہونگے جن کو خادمِ اعلیٰ کی بنائی ہوئی سپیشل ڈولفن فورس کے اہلکاروں کے سامنے ٹریفک اہلکار کی جانب سے زود و کوب کیا گیا جس پر متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی بھرپور ایکشن نہیں لیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اُن ڈولفن فورس کی مدعیت میں ٹریفک اہلکار پر مقدمہ درج ہوتا اور موقع پر اُسے گرفتار کر کے پابندِ سلاسل کیا جاتا مگر پنجاب پولیس کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لئے ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں اِسی طرح اپریل2016 ء میں شیراکوٹ کے علاقے میں جاوید نامی 55 سالہ شخص پر ٹریفک وارڈن کے اہلکار کی جانب سے تشدد کیا گیا جس سے اُس شخص کی ناک کی ہڈی ٹُوٹ گئی۔
ماضی میں بھی شیرا کوٹ کے ہی علاقے میں ٹریفک اہلکاروں کی جانب سے رکشہ ڈرائیوروں پر تشدد کیا گیا جس کی وجہ سے احتجاجاََ رکشہ ڈرائیوروں کو ہائی وولٹیج کی تاروں سے گھِرے کھمبے پر چڑھنا پڑا ، عید کے دنوں میں رکشہ کا چالان کرنے پر جھگڑے کی وجہ سے رکشہ والے کا بچہ ہسپتال جانے سے پہلے ہی جاں بحق ہو گیا جس کے بعد ٹریفک اہلکار کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
لاہور شہر میں لوگ پہلے پنجاب پولیس کے ہاتھوں تنگ تھے مگر اب ٹریفک پولیس سے بھی بدظن نظر آتے ہیں اُوپر سے خادمِ اعلیٰ کی اعلیٰ قسم کی ڈولفن فورس بھی امن و امان قائم کرنے میں فیل ہو چکی ہے حال ہی میں لاہور کے علاقے فیصل ٹائون میں ڈولفن فورس کے چار اہلکار رشوت لیتے ہوئے گرفتار کر لئے گئے جس سے خادمِ اعلیٰ کی تقریباََ چار سو ملین روپے سے تیار کردہ ڈولفن فورس کا پول کھُل گیا اور ہمیشہ کی طرح یہ ادارہ بھی بد عنوان لوگوں کی موجودگی کا پتہ دے گیا اداروں میں موجود کالی بھیڑیں تب تک ختم نہیں ہوتیں۔
جب تک حکام خود نہ چاہیں اس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف صاحب، وزیر قانون پنجاب جناب رانا ثناء اللہ، آئی جی پنجاب پولیس جناب مشتاق احمد سکھیرا صاحب، چیف ٹریفک آفیسر جناب طیب حفیظ چیمہ صاحب ،ڈی آئی جی آپریشن جناب ڈاکٹر حیدر اشرف صاحب، ایس پی مجاہد سکواڈ جناب سید قرار حُسین صاحب، ڈی ایس پی ڈولفن فورس جناب میر کاشف خلیل صاحب اور سی سی پی او لاہور جناب کیپٹن (ر) محمد امین وائیں صاحب سے گزارش ہے کہ پنجاب پولیس خصوصاََ لاہور پولیس کا نفسیاتی علاج کروایا جائے اور نئے سرے سے اِن کو ریفریشر کورس کروائے جائیں تا کہ پولیس اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا جو خلاء ہے اُس کو ختم کیا جا سکے۔
ٹریفک پولیس کو اپنے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کے متعلق معلومات حاصل ہو سکے کہ ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانا اور غلطی پر قانون کے مطابق چالان کرنا ہے نہ کے اپنے آپ کو جگا سمجھ کر رشوت وصول کرنا اور لوگوں پر تشدد کرنا ہے کیونکہ پولیس عوام کی محافظ ہے نہ کہ دُشمن۔
تحریر : محمد عرفان چودھری
ممبر پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ