تحریر: عاکف غنی
پاکستان کا وجود، دشمنانِ اسلام بالعموم اور ہٹ دھرم ہندوستان کوبالخصوص ایک آنکھ نہیں بھایا اور وہ اسے شروع دن سے ہی صفحہِ ہستی سے مٹانے کے در پہ ہو گئے۔دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود کرہِ ارضی پر قیام میں آیا تھا اس قومی نظریے کو ہندو تو شروع سے ہی ماننے کو تیار نہیں تھا، ہمارے کچھ نا عاقبت اندیش مسلمانوں نے بھی اس نظریے کو رد کیا۔پاکستان بنتے ہی ہندوستان نے اس سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی ، پینسٹھ میں لاہور میں ناشتے کا خوِاب دیکھنے والے کو منہ کی کھانی پڑی تو اکہتر میں اسے پاکستان کو دولخت کرنے کا سنہری موقع مل گیا۔طاقت کے غلط استعمال ،سیاستدانوں کی حبِ اقتدار اور ہندوستان کی سازشوں سے پاکستان دولخت ہو گیا۔جہاں پینسٹھ میں دو قومی نظریے نے ہندوستان کو لوہے کے چنے چبوائے تو وہیں اکہتر میں ہمارے اپنوں کی ناعاقبت اندیشیوں کے سبب ہندوستان کو یہ موقع فراہم ہو گیاکہ اس نے نہ صرف پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے بلکہ یہ طعنہ، طمانچے کی طرح ہمارے منہ پہ دے مارا کہ اس نے دو نظریے کو بحرِ ہند میں ڈبو دیا ہے۔
سولہ دسمبر کا منحوس دن ، پاکستان کے دولخت ہونے اور دو قومی نظریے میں دراڑ ڈالنے کا دن بن گیا۔ پاکستان کو وجود میں آتے ہی ایک طرف ہندوستان کی دشمنی کا سامنا تھا تو دوسری طرف اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا۔قائدِ اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان میں کھوٹے سکوں کاراج چلنے لگا۔ جاگیرداری اور وڈیرہ ازم جو دو قومی نظریے کی بجائے مختلف قومیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں ،کا خاتمہ نہ ہو سکا اور پاکستان ایک قوم بننے کی بجائے مختلف قومیتوں میں بٹ گیا ۔ سندھی ،بلوچی، پختون، پنجابی اور بنگالی کی تقسیم تو پہلے ہی تھی سندھ میں کوٹہ سسٹم اور اس طرح کی دیگر ناانصافیوں نے ایک اور قومیت کو جنم دیا جسے مہاجر کہا جاتا ہے اور وہ مہاجرسے متحدہ بننے کے باوجود بھی اس تعصب سے باہر نہیں نکل سکے۔
پاکستان جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا وہ یہ تھا کہ مسلمان ایک قوم ہیں، جن کا رہنا ،سہنا ،اٹھنا ،بیٹھنا ،کھانا ،پینا رسم و رواج سب اسلام کے مطابق ہیں جبکہ ہندو ایک الگ قوم ہے لہٰذہ ہندوؤ ں کے ساتھ رہنا نا ممکن ہے۔افسوس پاکستان جس نظریے کی بنا پر وجود میں آیا اس نظریے کا نفاذ کبھی نہ ہو سکا ۔ اسلام کا نعرہ لگایا جاتا رہا مگر اسلام کو اللہ ہو ،میلاد ،تبلیغ اور جہاد کے خانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جہادی عنصر چونکہ جوش، جذبے اور ہمت سے لیس تھا سو ہماری فوج نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا،کشمیر ، کارگل اور افغانستان میں ان جہادیوں سے خوب کام لیا۔ان عناصر کی جنگی بنیادوں پر تربیت کی گئی،پیسے سے خوب نوازا گیا ،گویا جہاد ایک بزنس بن گیا۔
حالات بدلنے لگے کشمیر کا جہاد قصۂِ پارینہ بن گیا،افغانستان امریکیوں نے سنبھال لیا ،اب ان جہادیوں کو بیروز گاری کا سامنا تھا، انہیں دشمن نے ہاتھوں ہاتھ لیا اسلحہ بھی دیا جانے لگا اور پیسے بھی یوں ہمارے اپنے ہی پالے ہوئے سانپ ہمیں ڈسنے لگے۔ کہیں طالبان کے نام سے تو کہیں القائدہ کے نام سے کاروائیاں ہونے لگیں۔ دہشت گردی لگے لیبل والا جہاد جو پاکستان نے کسی زمانے میں روس کے خلاف شروع کیا تھا، خوِ د پاکستان کے اپنے ہی گلے پڑ گیا،کبھی فوجی تنصیبات پہ حملہ تو کبھی معصوم جانوں کے خلاف حملے۔ پھر یوں ہوا کہ سولہ دسمبر کا دن جو ہمیں دولخت کر چکا تھا اسی دن کا چناؤ کر کے آرمی پبلک سکول کے پھولوں کو بارود سے اڑا کر پاکستان کوتوڑ پھوڑ کر شکستہ کرنے کی ناپاک سازش کی گئی۔
دشمن کا نہتے بچوں پر وار پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بجائے پاکستان کو پھر سے ایک قوم بننے کا موقع فراہم کر گیا۔معصوم بچوں کی جانوں کے نذرانے ہمیں ایک قوم بنا گئے۔
آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا گیا اور دشمن کو نیست و نابود کرنے کی جنگ شروع کی گئی ، ہمیں مختلف سمتوں سے دشمن کا سامنا ہے،ایک طرف مذہبی دہشت گرد ہیں تو دوسری طرف بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اورکرپٹ عناصر ہیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں۔یہ جنگ وزیر ستان تا کراچی ہر طرح کے کرپٹ عناصر کے خلاف لڑی جانی چاہیے تا کہ پاکستان کواتنا مضبوط بنایا جا سکے کہ نہ صرف پاکستان دو قومی نظریے کا ثبوت دے سکے بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی تحفظ کا احساس ہو۔کسی مودی ،کسی شو سنہا ،یا کسی اور انتہا پسند کو جرأت نہ ہو کہ وہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کی دھمکی دے سکیں۔ ہندوستان نے گائے کا گوشت کھانے پر پابندی اورعامر خان جیسے ہیروز کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر کے ثابت کر دیا ہے کہ دو قومی نظریہ بالکل ٹھیک تھا اورپاکستان کا قیام لازمی تھا۔
سولہ دسمبر پاکستانیوں کے لئے سانحات کا دن ثابت ہوا، ایک سولہ کو سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو دوسری سولہ دسمبر کو معصوم بچوں کی شہادت کا سانحہ ،یہ سانحات ہمارے لئے دلخراش ضرور ہیں مگر ان کے بعد ہمارے قدم ڈگمڈائے نہیں بلکہ ہمیں ایک خاص حوصلہ ملا ہے۔ سولہ دسمبر کو بچوں کی شہادت ہو یا سانحۂِ سقوطِ ڈھاکہ ،ہمیں سبق سیکھنے پہ مجبور کرتا ہے کہ ہمیں ایک قوم بننا ہے ۔اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہے، جس ادارے کا جو کام ہے وہ وہی کام سر انجام دے،۔
فوج اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں احسن طریقے سے سر انجام دے سکتی ہے اسے کسی مذہبی جماعت کے سہارے کی ضرورت نہیں ،وہ نہ کسی کو سہارا دے اور نہ کسی کا سہارا لے۔مذہبی جماعتوں کو اسلامی نظام ،اخلاقیات، روایات اور حسنِ سلوک کی تعلیمات کا کام کرنا ہے، سیاست دان اپنا کام کریں ، ملک و قوم کی ترقی کی طرف توجہ دیتے ہوئے ملک کو ایک قوم بننے کی طرف توجہ دیں۔دہشت گردی انتہا پسندی اور عدم برداشت کہیں بھی ہو برداشت نہ کی جائے اس کے خلاف پولیس، رینجرز، یا فوج جس کی ضروت ہو استعمال میں لایا جائے اور پاکستان کو دو قومی نظریے کی حامل اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں ایک دوسرے کا معاون بنا جائے۔
تحریر: عاکف غنی