یہ بات میرے لیے تو قطعاً ناقابل فہم ہے کہ بنگلہ دیش کی 45 سالہ یوم آزادی کی تقریبات کی تیاریوں کے دوران آخر ہندوؤں کے مندر اور ان کی جائیدادیں کیوں تباہ و برباد کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ پنتالیس سال قبل بھارت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مغربی پاکستان کی بالادستی سے باقاعدہ جنگ کے ذریعے نجات دلائی تھی اور جس کے لیے بھارتی فوج کے دو ہزار سے زائد فوجیوں کو اپنی جان کے نذرانے پیش کرنے پڑے تھے۔ ان سب باتوں پر مستزاد یہ کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ انھی شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک شروع کی تھی، حسینہ شیخ کی مذہبی قوتوں کے خلاف جنگ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
یہ الگ بات ہے کہ حسینہ نے اس جنگ کو بنیادی طور پر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) شکایت کرتی ہے کہ حسینہ کے غیظ و غضب کا نشانہ انھی کی پارٹی ہے کیونکہ وہ بنگلہ دیش میں متبادل قیادت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ جس کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء ہیں ان کی شکایت ہے کہ حسینہ شیخ ان کی پارٹی کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں۔ خالدہ ضیاء کا یہ شکوہ بھی ہے کہ حسینہ شیخ اس کی پارٹی کے خلاف بھارت دشمن پراپیگنڈا بھی کر رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے فوراً بعد ڈھاکا میں میری شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے شکایت کی کہ ان کے ملک میں بھارت کے خلاف جذبات کا کھلے عام اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ میں نے ڈھاکا پریس کلب کا ایک چکر لگایا ہے جہاں میڈیا کے اراکین سے ملاقات ہوئی اور مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ بنگالیوں کی پسندیدہ اسموکڈ فش ’’ہلسا‘‘ کولکتہ میں عام مل جاتی ہے لیکن ڈھاکا میں نہیں ملتی تو کیا بنگلہ دیش کی آزادی کا یہی فائدہ ہوا ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا، جس نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں اس کی فوجی مدد کی تھی، اس کی اس نیکی کو بنگالی اب بھی یاد کرتے ہیں اور شیخ مجیب الرحمن نے مجھے کہا تھا کہ بنگالیوں کو کوئی پانی کا ایک گھونٹ بھی پلاتا ہے تو وہ اسے کبھی نہیں بھولتے۔ لہٰذا بنگلہ دیشی جنرل اروڑا کی نیکی کو بھی کبھی نہیں بھولیں گے۔ شیخ مجیب نے یہ بھی کہا کہ سیکولر ازم کی جڑیں بنگلہ دیش میں خاصی گہری ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اب بنگلہ دیش میں اس کی اس شناخت پر سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے۔
جماعت اسلامی جو جنرل ارشاد کی فوجی حکومت میں حکومت کے ساتھ تھی اب اس کی سابقہ حیثیت کا بنگلہ دیش میں کوئی وزن نہیں رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ شیخ حسینہ کی عدم مقبولیت کی وجہ سے بنگلہ دیش کی بھارت دشمنی میں بھی کمی کا تاثر ابھرتا ہے۔ شیخ حسینہ کی تمام تر جدوجہد کا مقصد بیگم خالدہ ضیاء کے حامیوں کو شکنجے میں جکڑنا ہے۔ شیخ حسینہ کی اب یہ کوشش بھی ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے اقتدار سے باہر نہ ہو سکے۔
اپوزیشن پارٹیاں کھلم کھلا کہتی ہیں کہ انتخابات میں حسینہ انھیں کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دے گی کیونکہ انتخابات آزادانہ نہیں ہونگے۔ وہ پہلے ہی خاندانی قیادت کی تیاریاں پکی کر رہی ہیں اور امریکا میں موجود اپنے بیٹے کے ساتھ حکومت کے تمام معاملات میں صلاح مشورہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں کلیدی مناصب پر اپنے مرضی کے افراد کو تعینات کر رہی ہیں اور اس طرح ملک کا تعلیمی نظام تباہ کیا جا رہا ہے جو کہ بنیادی طور پر میرٹ پر منحصر تھا لیکن اس سے وزیراعظم کو کوئی تشویش نہیں۔ انھیں صرف اپنے وفاداروں کو نوازنا مقدم ہے۔
اگر حسینہ کے والد کے کردار پر کوئی الزام عائد کرتا ہے تو اس الزام کی تنسیخ کے لیے ایک قانون جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی اپوزیشن پارٹیاں حسینہ شیخ کا ہدف ہیں اور کچھ عرصے بعد ان پارٹیوں کی قطعاً کوئی آواز سنائی نہیں دے گی کیونکہ ان کا گلا مکمل طور پر گھونٹ دیا جائے گا۔ ان ساری کارروائیوں میں شیخ حسینہ نے ملک کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنا ہی ترک کر دیا ہے۔ ملک کی عدلیہ بھی آزاد نہیں رہی۔ بھارت میں ججوں کا انتخاب ان کے کولیگ کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں حکومت ججوں کو تعینات کرتی ہے لہٰذا ان کے فیصلوں میں آزاد خیالی کا جوہر مفقود نظر آتا ہے۔ اس بات کا اعتراف بنگلہ دیش کے اولین وزیر خارجہ کمال حسین نے بھی کیا۔
مجھے یاد ہے کہ ڈھاکا میں بھارت کے ہائی کمشنر سبریمل دت کے ساتھ میری بات چیت ہوئی۔ میری شکایت کے جواب میں کہ بنگلہ دیش میں موجود 10 لاکھ سے زائد ہندوؤں کا کیا بنے گا، ہائی کمشنر دت نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد بھارت ہجرت کر جائے اور جو باقی رہ جائیں گے ممکن ہے کہ وہ مذہب بدل کر مسلمان ہو جائیں۔ یہ ساری باتیں تو رہیں ایک طرف لیکن جس بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر بنگلہ دیش میں مقیم 10 لاکھ سے زائد ہندوؤں کی املاک اور مندروں کو کیوں جلایا جا رہا ہے؟
بنگلہ دیش والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 20 کروڑ سے زائد ہے لہٰذا انھیں بنگلہ دیشی مسلمانوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ ہندوؤں کو نقصان نہ پہنچنے دیں۔ بنگلہ دیش کو بھی اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے ملک میں سیکولر ازم کا نظام نافذ کرنا چاہیے اور جماعت اسلامی جیسی پارٹیوں کو بنیاد پرستی کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ شیخ مجیب کا یہ نظریہ نہیں تھا۔
شیخ مجیب کو بنگلہ دیش میں ’’بنگلہ بندھو‘‘ یعنی بابائے قوم کا درجہ حاصل ہے جو ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کے داعی تھے۔ شیخ حسینہ کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے والد کی سوچ کو اختیار کریں لیکن شیخ حسینہ کی کارروائیاں بنگلہ دیش کو ایک المیے سے دوچار کر رہی ہیں۔