تحریر: نعیم الرحمان شائق
سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا۔ لیکن کیا کروں اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ عرب و ایران۔
بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔ یونی ورسٹی کے گارڈز اور پولیس نے مقدور بھر کوشش کی کہ مسلح لوگوں کے اس گروہ کو ختم کر ڈالیں ، لیکن ان کا خاتمہ اس وقت تک نہ ہو سکا ، جب تک پاک فوج کے جوان نہ آگئے ہاں ، یہ ضرور ہو ا کہ گارڈز اور پولیس کی کوششوں سے دہشت گرد کوئی بڑی کا رروائی کرنے سے عاجز رہے۔ کچھ لوگ مر کر امر ہوجاتے ہیں ۔ پھر شہید تو ویسے بھی زندہ ہوتے ہیں ۔ مگر ہمیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ با چا خان یو نی ورسٹی کا ہر شہید زندہ ہے ۔کیوں کہ ان کو شہادت کے بعد حیات ِ جاودانی مل گئی ہے ۔ یعنی نہ ختم ہونے والی زندگی۔ ایک ایسی زندگی جس کی کو ئی انتہا نہیں۔
جب کوئی اہل ِ علم اٹھتا ہے تو مجھے ذاتی طور پر بہت صدمہ ہو تا ہے ۔ اس وقت تو اور زیادہ افسوس ہوتا ہے ،جب علم کا نور پھیلانے والوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ۔ باچا خان یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید حامد حسین کی شہادت کا احوال پڑھا تو تو آنکھیں بھیگ گئیں ۔ شہید پروفیسر اعلی تعلیم یافتہ تھے ۔ انھوں نے انگلینڈ سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی تھی ۔ زندہ رہتے تو نہ جانے کتنے طلباء ان کے علم سے مستفید ہوتے ۔ مگر وہ بھی ان بے رحم گولیوں کا نشانہ بن گئے ، جن کی آنکھیں نہیں ہوتیں ۔ البتہ جو لوگ ان گولیوں کو چلاتے ہیں ، ان کی آنکھیں ضرور ہوتی ہیں ۔ شاید ان کے سینوں میں دل نہیں دھڑکتے ہوں گے ۔ تبھی تو وہ بے ضرر اور علم کے نور سے جہالت کی تاریکیاں مٹانے والے عظیم لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں ۔ کیا قصور تھا ، ڈاکٹر حامد حسین کا؟۔۔۔۔کیا قصور تھا ان طلبہ کا ، جو علم سیکھ کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے؟؟
حملے کے بعد معلوم ہوا کہ حملہ آوروں نے افغانستان کی سمیں استعمال کیں ۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے حملے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتا یا کہ حملہ آوروں کو کس نے بھیجا ؟دہشت گرد کون تھے ؟ کہاں سے آئے تھے ؟ان کو کہاں سے کنٹرول کیا گیا ؟ اس بارے میں کافی معلومات مل گئی ہیں ۔ پاک فوج کے ترجمان نے اس واقعے پر انتہائی غم اور غصے کا اظہار کیا ۔ آرمی چیف جنر ل راحیل شریف نے افغانستان کے صدر اشرف غنی ، افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ اور امریکی کمانڈر جنرل جان کیمبل سے فون پر بات کی اور حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو افغانستان کے ایک مقام سے کنٹرول کیا گیا ۔ اس لیے حملے کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف سخت کا رروائی کی جائے۔
حملہ آوروں کے پاس افغانستان کی سمیں تھیں ۔ یہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ کہ حملہ آوروں کو وہیں سے ہدایات ملتی رہیں ۔ پاکستانی فوج نے دہشت گردی پر بڑی حد تک کنٹرول کر لیا ہے ۔ لیکن ہم سایہ ملک افغانستان میں کچھ ایسے عناصر ضرو موجود ہیں ، جو اب تک پاکستان کے خلاف محاذ گرم کیے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی فوج کا وہاں پہنچ کر ان عناصر کے خلاف اقدام اٹھانا محال ہے ۔ اس لیے افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ خو د ہی وہاں پہنچ کر ان کا قلع قمع کرے۔ کیوں کہ یہ عناصر پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے لیے بھی خطرناک ہیں ۔ اگر افغانستان اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے ان عناصر کے خلاف ضرور کارروائی کرنی ہوگی ، جو پاکستان کے تعلیمی اداروں کو بھی نہیں چھوڑتے۔
اب دوسرے موضوع کی طرف آتا ہوں ۔سعودی عرب اور ایران کی حالیہ کشیدگی نے اس وقت جنم لیا ، جب سعودی عرب نے شیخ النمر کو سزائے موت دی ۔ شیخ النمر اہل ِ تشیع میں سے تھے ، لیکن ان کی پیدائش سعودی عرب میں ہوئی تھی ۔اس سے پہلے جب سعودی عرب کی قیادت میں 34 اسلامی ممالک کا اتحاد قائم کیا گیا تو اس میں ایران کو نہیں رکھا گیا ۔ ایران کو اس بات کا بھی غصہ تھا ۔ غصے کے ساتھ ساتھ تشویش بھی تھی کہ کہیں یہ اتحاد ایران کے خلاف محاذ گرم نہ کر دے ۔ جب سعودی عرب نے شیخ النمر کی سزائے موت پر عمل در آمد کیا تو ایران سعودی عرب کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالات اتنے کشیدہ ہوگئے ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملہ کر دیا گیا۔
کچھ روز قبل وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنر ل راحیل شریف نے پہلے سعودی عرب اور پھر ایران کا دورہ کیا۔ تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ پاکستان در برادر ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کا خواہاں ہے ۔ سعودی عرب اور ایران کے دورے کے بعد وزیر ِ اعظم نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں سے بات چیت نے ہمیں حوصلہ دیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب سے ہمیں مثبت جواب ملا ہے ۔ سعودی عرب اور ایران بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں ۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو دشمن نہیں سمجھتے ۔ پاکستان میزبانی کر نا چاہتا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دو بھائی لڑیں تو ان کی صلح کراؤ ۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے ۔ مسلم امہ کے درمیان اتحا د و یک جہتی ہونی چاہیے۔
درحقیقت اتحاد ہی مسلم امہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ مسلمان جب تک منتشر رہیں گے ، کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کا خاتمہ از حد ضرور ی ہے ۔ جب تک مسلمان متحد تھے ، کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرءات نہیں کر سکتا تھا ۔ لیکن جب یہ منتشر ہو گئے تو دشمنوں کو موقع ہاتھ آگیا ۔ انھوں نے اس حرماں نصیب قوم کا وہ حال کیا کہ زمانے بھر میں یہ قوم رسوا ہوگئی۔ عرب و عجم کی لڑائی بہت پرانی ہے ۔ تاریخ ِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسا دور آیا ہو ، جب یہ لڑائی تھمی ہو ۔ عرب و عجم کے درمیان فرقہ واریت کی اتنی بڑی اور تاریخی خلیج دیکھ کر مشکل لگتا ہے کہ پاکستان کی کوششوں کے سو فی صد نتائج نکلیں گے ۔ لیکن کسی حد تک اس کشیدگی کا خاتمہ ضرو ہو جائے گا ۔ بلکہ ان کو ششوں کے مثبت اثرات نظر آنے شروع ہوگئے ہیں ۔میر ی نظر سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کا ایک بیان گذرا ہے ۔ ان کے مطابق ایران میں سعودی سفارت خانے سے اسلام کو نقصان پہنچا ہے ۔ حالیہ کشیدگی کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایران کے سپریم لیڈر سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی ۔ درحقیقت یہ پاکستان کی کوششوں کا ثمرہ ہے ۔ اب دیکھتے ہیں ، آگے کیا ہوتا ہے !!!
تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا: کراچی
ای میل:
shaaiq89@gmail.com
فیس بک:
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq