تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
سانحہ ڈسکہ کی ہر محب نے شدید مذمت کرتے ہوئے قوم سانحہ قراردیاہے۔سانحہ میں جاں بحق ہونیوالے تحصیل بار کے صدر رانا خالد عباس اور ایڈووکیٹ عرفان چوہان آبائی قبر ستان میں سپرد خاک کردیاگیا ‘نماز جنازہ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منظور احمد ملک اور دیگر معزز جج صاحبان، وکلاء اور تحر یک انصاف کے صوبائی آرگنائزر چوہدری محمد سرور سمیت سینکڑوں افراد نے شر کت کی ‘وکلاء تنظیموں کی کال پر سانحہ کیخلاف ملک بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی’لاہور میں مشتعل وکلاء نے پنجاب اسمبلی کے گھیرائو کے دوران مرکزی دروازے پر بنے سکیورٹی شیڈ کو آگ لگا دی ‘تحر یک انصاف اور پیپلزپارٹی کا سا نحہ ڈسکہ کے خلاف لاہور پر یس کلب کے باہر احتجاجی مظاہر ہ ‘دونوں جماعتوں کا وکلاء کے مطالبات کی منظوری انکا بھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
پاکستان بھر میں وکیلوں کے احتجاج کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے ، وہ ایک قومی المیہ سے کم نہیں۔ پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے جبکہ وکلا قانون کی عملداری کو یقین بناتے ہیں۔ لیکن ان دونوں کی طرف سے جس مجرمانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہی رویہ دراصل ملک میں امن و امان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہر شخص اور ادارہ دوسروں سے قانون کی پاسداری کا مطالبہ کرتا ہے لیکن خود کو اس سے مبرا سمجھتا ہے۔ سانحہ میں قصور واروں کا تعین کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ کسی تبصرہ نگار اور رپورٹر کا کام ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے۔ اس دوران وکلا کی تنظیموں نے سوگ اور احتجاج جاری ہے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے ملک گیر احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ ڈسکہ فائرنگ میں جاں بحق ہونے والے دونوں وکلا کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔ اب یہ پارٹی اس المناک واقعہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے بخوبی استعمال کر سکتی ہے۔
مقامی شہریوں کا کہناہے کہ ڈسکہ کچہری میں وکیلوں کے کیبنز کے لئے غیر قانونی طور پر جگہ پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ تحصیل ایڈمنسٹریشن اس ناجائز قبضہ کو ختم کروانا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لئے پولیس کی امداد طلب کی گئی تھی۔ اس حوالے سے وکیلوں کے نمائندوں اور تحصیل ایڈمنسٹریشن کے افسران اور پولیس عہدیداروں کے درمیان گزشتہ ہفتہ عشرہ سے جھگڑا چلا آ رہا تھا۔ اسی جھگڑے کو رفع کروانے کے لئے تحصیل آفس میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ لیکن وکیلوں کے نمائندے اس اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ وکیلوں کا گروہ نعرے لگاتا تھانے پہنچا اور چند اہلکاروں یا افسروں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا مطالبہ کر رہا تھا کہ ڈسکہ کے تھانہ سٹی کے ایس ایچ او شہزاد وڑائچ کے ساتھ توتکار اور جھگڑا شروع ہو گیا۔ طیش میں آ کر ایس ایچ او نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کر دی۔ اس فائرنگ سے بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پی ٹی آئی کے عہدیدار رانا خالد عباس اور ایک وکیل عرفان چوہان جاں بحق ہو گئے۔ تین زخمی زیر علاج ہیں۔
اس افسوسناک سانحہ اور ایک پولیس افسر کی مجرمانہ غیر ذمہ داری پر ردعمل کے طور پر وکیلوں اور دیگر مظاہرین نے ڈسکہ شہر میں دہشت طاری کر دی۔ تحصیل ایڈمنسٹریشن کے دفتر، اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ، ڈی ایس پی کے دفتر اور تھانے کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پولیس کے اکثر اہلکاروں نے بھاگ کر جان بچائی۔ اس تصادم نے انارکی کی صورت اختیار کر لی تھی اور چند گھنٹوں تک شہر میں امن بحال کرنے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے امن اور انتظام بحال کرنے کے لئے رینجرز تعینات کرنے کا حکم دیا۔
ایک پولیس افسر کا مجرمانہ رویہ بلا شبہ اس ادارے کی کمزوری اور نقائص کو ظاہر کرتا ہے۔سانحہ رونما ہونے سے پہلے بھی ملک بھر میں تھانہ کلچر کے نام سے جس مزاج اور رویہ کا حوالہ دیا جاتا ہے، وہ پولیس کے اس طریقہ کار کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت وہ قانون کا احترام کرنا ضروری نہیں سمجھتی۔ پولیس افسران اپنے علاقے میں دھونس اور دہشت قائم رکھنے کے لئے طاقت اور اختیارات کا بے دریغ اور غیر قانونی استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ ڈسکہ سے پہلے متعدد مواقع پر دیکھنے میں آیا ہے۔ کراچی میں دو روز قبل پولیس نے جس طرح صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، وہ بھی اسی مزاج کا حصہ ہے۔ بدنصیبی سے ملک کی سیاسی حکومتیں پولیس کی تطہیر اور پولیس افسران کو قانون کے احترام کے لئے مثال بننے پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے سیاست دان ہیں
یہ صورتحال خاص طور سے گزشتہ برس ملک میں دھرنا سیاست کے دوران دیکھنے میں آئی تھی۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے یکساں طور سے قانون کو ہاتھ میں لینے اور قانون نافذ کرنے والوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے اس طرزعمل سے پولیس فورس کی اتھارٹی اور مورال پر انتہائی منفی اثر مرتب ہوا ہے۔ جو قانون نافذ کرنے کیلئے بے حد ضروری ہے۔جب ملک کے وکیل کسی تنازعہ یا اختلاف پر احتجاج کرتے ہوئے جلائو گھیرائو ، توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں تو خاص طور سے مایوسی اور پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ ایک تو اس لئے بھی کہ یہ لوگ پوسٹ گریجویٹ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں شامل ہیں۔
کوئی بھی معاشرہ اپنے تعلیم یافتہ طبقہ سے رہنمائی کی امید رکھتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ لوگ قابل تقلید کردار کا مظاہرہ کریں گے۔ پھر اگر یہ تعلیم یافتہ گروہ وکیلوں پر مشمل ہو جو قانون کی تعلیم حاصل کر کے قانون کی بالا دستی کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہوں تو ان کی طرف سے سرکشی ، قانون شکنی اور عنڈہ گردی کا رویہ خاص طور سے تشویش کا سبب ہے۔ اس صورت حال میں یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ پاکستانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کوئی طبقہ بھی سماجی سدھار اور قانون کی حکمرانی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
میڈیا میں پنجاب کے مختلف شہروں میں وکیلوں کے غول ڈنڈے اٹھائے اکا دکا پولیس افسر کو مارتے، زد و کوب کرتے اور ہراساں کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔ جب پڑھے لکھے وکیلوں کا گروہ نہتے اور وردی پوش شخص کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہو تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ نہ تو قانون کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اس بنیادی انسانی اخلاقیات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ نہتے پر وار نہیں کرنا چاہئے۔
حکومت اور سیاستدانوں پر البتہ یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تعلیمی نظام ، اداروں کے انتظامی ڈھانچے ، افسروں کی تربیت اور سرکاری اہلکاروں کے احساس ذمہ داری کے لئے فوری طور پر ٹھوس اقدام اٹھانے پر غور کریں۔ ماہرین اور مبصرین کاکہناہے کہ ایسے سانحات سے اوورسیزپاکستانیوں کو بہت سی مشکلات کاسامناکرناپڑاہے جس سے ملکی معیشت کوبری طرف نقصان بھی ہوتاہے۔الہذقانون اور آئین کی خلاف ورزی سے نہیں بلکہ قانون اور آئین پر عمل کرنے سے ہی قوم وملک کا وقار بلندہوتاہے۔
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ