تحریر: ڈاکٹر خالد فواد
سانحہ منی میں سیکڑوں حجاج جمرات کی رمی کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔یہ امر جہاں مرنے والوں کے لئے باعث فخر ہے وہیں پر ملت اسلامیہ کے لئے یہ حادثہ المیہ عظیم اور دکھ و غم میں مبتلا ہوگئے کہ وہ حج کے موقع پر اس قدر انسانیت کے بڑے سانحہ سے دوچار کیوں ہوگئے ؟بدیہی بات ہے کہ یہ سانحہ سطحی و جامدفتوے جاری کرنے اصحاب علم اس سانحہ کے براہ راست ذمہ دار ہیں ۔اب بعض لوگ باوجود حج کے فریضہ کی ادائیگی کی تمنا و خواہش کے جانے پر تیار نہیں ہوں گے ،کہیں پھر کسی سانحہ کا سامنا کرتے ہوئے انہیں بھی اس سے گزرنا پڑے۔اسلامی فقہ میں کشادگی اور وسعت ہے لیکن بعض مفتی منجمداور مشکل کردیتے ہیں ،ایسامحسوس ہوتاہے کہ تنگ نظری ان کے نزدیک ہی اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
جمہور فقہا ء کے نزدیک رمی کرنا واجب ہے الا یہ کہ کوئی بیمار ہویا اس کو کسی سبب روک دیا گیاہو ،اس امر سے ظاہر ہوتاہے کہ ہر حاجی پر لازم ہے کہ وہ رمی بذات خود کرے۔لیکن عصر حاضر کے علماء مرض اور حبس پر قیاس کرتے ہوئے خواتین کو استثنیٰ دے دیں کہ وہ اپنے شوہر، بیٹے ،بھائی اور اپنے کسی محرم کو نائب بنا دے کہ وہ اس کی جانب سے رمی اداکرلے ،اس سہولت و آسانی کے پیدا ہونے کے سبب خواتین کی شہادتیں کم ہوں گی اور ہجوم کے کم ہونے کے سبب عمومی حادثہ بھی پیش نہیں آئے گا۔ اس امر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین اور کمزور و ضعیف بزرگ لوگ اپنی جانب سے کسی نوجوان فرد کو نائب بنالیں تو حجاج کے ازدحام و ہجوم سے بچاجاسکتاہے۔
یعنی اگر ٤٠ لاکھ لوگوں میں سے آدھے لوگ اپنے نائب مقرر کرلیں تو ہجوم آدھا ہوجاے گا اور اس سے بھیڑ و ہجوم میں کمی آکر ٢٠ لاکھ ہو جائے گی۔ انسانیت کو موت کے منہ میں دکھیلنے والی بھیڑ سے بچانے کے لئے فقہاء سہولت و گنجائش س استفادہ فراہم کر دیں کیوں کہ یہ اسلام کی روح حقیقی اور فقہ کی طبعیت و مزاج میں بھی لچک موجود ہے جیسے کہ حدیث نبی میں ہے کہ ”آسانی پیدا کرو تنگی نہیں” خاص طور پر ایسا اجتہا دجو شریعت کی نصوص کا مخالف نہ ہو ،حقیقی مفتی دین اور شریعت کی روح کو سمجھتاہے ،اسی طرح رمی کی زوال سے قبل کی بھی اجازت دی گئی ہے انسانیت کی زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، انسان کا احترام کعبہ کے احترام سے زیادہ ہے ،اور انسانی جان کی حفاظت شریعت میں بذات خود مطلوب ہے ۔۔۔تو کس بات نے منع کیا مفتی کو کہ وہ انسانیت کے خون کا پانی کی طرح بہنے پر غور و فکر نہیں کرتے۔۔۔
مخلص و نیک علماء نے اپنے اجتہادات کے ذریعے سے اللہ کے دین کی خدمت کی ہے۔اگر ہم یہ تصور کرلیں کہ اس قدر بڑا سانحہ اس سال پیش آیا مگر ہمیں معلوم ہے کہ حج کے موقع پر ہمیشہ اس طرح کے واقعات گاہے بگاہے پیش آتے رہتے ہیں۔علمی ترقی انسانیت کی فلاح اور اس کی بھلائی کا تقاضہ کرتی ہے ،کیسے ممکن ہے کہ سینکڑوں لوگوں کی اموات پر خاموش رہاجائے ؟اسلامی فقہ اور اس کا باب حدود میں سینکڑوں آراموجود ہیں نبی کریم ۖ کے قول ”حدود کو شبہات کے سبب نافذ کرنے سے روک جائو”اسلامی فقہ نے پہلے ہی سے اس باب میں رخصتیں عطاکیں اور آسانیاں پیداکی ہیں۔
ہم کیوں فقہاء کے رخصت و آسانی وسہولت کے متعلق اقوال و آراء کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کراواکر حجاج میں تقسیم نہیں کرتے ؟۔۔۔۔اور میڈیا میں پروگرامات کے ذریعہ حج میں موجود آسانیوں کو بیان کیوں نہیں کیا جاتا؟؟اس طرح کے سانحات سے بچنے کے لئے متعدد حل موجود ہیں مگر محسوس یہ ہوتاہے کہ انسان کے خون کی قدر و قیمت کسی کو حاصل نہیں اور نہ ہی وہ انسانیت کی اموات کثیرہ سے غمگین ہوتے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر خالد فواد
(رئیس البعثہ الازھریہ فی باکستان)
khalidfuaad313@gmail.com