تحریر: عقیل احمد خان لودھی
منگل 16 دسمبر 2014ء کے روز انسانی تاریخ کے ا نتہائی اندوہناک واقعات میں ایک اورواقعہ کا اضافہ ہو گیا ہے، یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی جتنی بھی شدید مذمت کی جائے کم ہے یہ واقعہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں ورسک روڈ کے ایک سکول میں پیش آیا جب آٹھ سے دس کے قریب مسلح دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے روپ میں سکول میں داخل ہوئے اور وہاںموجود کم سن طالبعلموں کو اندھا دھند فائرنگ کر کے، دھماکے کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دہشت گردی کی تاریخ کے اس بدترین واقعہ میں علم کے حصول اور علم فراہم کرنے والے100 سے زائد طلبا واساتذہ نشانہ بنے اور اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کردیں۔حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے ۔اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پر امن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اولاد آدم کے قتل عام کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اور یہاں عرصہ سے قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری ہے ۔تعلیم بندے کو انسان بناتی ہے اور انسانوں کے دشمنوں نے اس واقعہ میں اپنے عزائم کا واضح اظہار کردیا ہے کہ انہیں نا ہی انسانوں سے محبت ہے اور نا ہی تعلیم جیسے کسی عمل سے۔
انہیں سفاکیت اور در ندگی کے سوا کچھ نہیں آتا وہ چاہتے ہیں کہ یہ معاشرہ جنگل میں تبدیل ہوجائے۔سانحہ پشاور کے بعد ہر درد مند انسان تکلیف اور اذیت میں دکھائی دیا ہے ، جس کسی نے بھی اس واقعہ کو سنا یا ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھا ہے وہ والدین اپنے معصوم بچوں کو اور بھی پیار کرنے اور سینوں سے لگا کر اﷲ کے حضور دعاگو ضرور ہوئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان کی اولادوں کو ملک بھر کے انسانوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اﷲ تعالیٰ انسانوں پر رحم کرے اور انسانیت دشمنوں کا بیڑہ غرق کرے اور ساتھ ہی والدین کے ذہنوں میںاپنے بچوں کو سکولوں میں بھجوانے سے متعلق سخت ترین تحفظات نے بھی جنم لیا ہے۔
انسانوں کی اس تکلیف میں وہ بھی پریشان دکھائی دیئے ہیں جن کی غفلت سے یہ واقعات رونما ہوئے گو کہ اٹھارہ بیس کروڑ کے اس معاشرہ میں ہم سب سے ہی کہیں نا کہیں کوئی نہ کوئی ایسی غفلت اور کوتاہی ضرور سرزد ہورہی ہے کہ جو ایسے واقعات میں ملوث درندے ہماری نظروں میں رہ کر بھی پس پردہ شیطانی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا لیتے ہیں مگر ان کا قصور زیادہ ہے جنہیں اپنے اقتدار کے سوا کچھ بھی عزیز نہیں کہ جن کی حفاظت پر ملکی سیکیورٹی ادارے دن رات مامور ہیں اور ہزاروں اہلکاراپنی اصل ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہیں حکمران طبقہ کے پروٹوکول نبھانے کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں کراچی سے خیبر تک اسلحہ بارود کی منتقلی ہوجاتی ہے۔اس بار وہ بھی پریشان دکھائی دیئے ہیں انہیں اس دکھ تکلیف کا اندازہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن کو کانٹا بھی چبھے تو امریکہ یا یورپ کے ہسپتالوں سے ادھر ان کے درد کا علاج نہیں ہوتا۔ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ہمیں اٹھارہ کروڑ کے قریب لوگوں کو اپنا اپنا فرض نبھانا ہوگا معاشرے میں موجود انسانیت دشمنوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی کہ اس دکھ میں آپ اکیلے نہیں ہیںپاکستان بلکہ دنیا بھر کے لوگ جن میں ذرا بھی انسانیت ہے آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ایک عرصہ سے سکولوں کالجوں پر اس طرح کے حملے جاری ہیں آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آسکی وہ کون سے مسلمان ہیں جو شریعت کے نفاذ کی باتیں بھی کرتے ہوں، سکولوں کالجوں پر حملے بھی کرتے ہوں، کلیوں جیسے نازک ، پاکیزہ جذبوں کے مالک کم سن پھولوں کو ان پھولوں کو جن کو دیکھتے ہی بے موسم بہار آجاتی ہے اپنی وحشت کا نشانہ بنا کر ان پر گولہ وبارود برسا کر اپنے شیطانی جذبوں کو تسکین بھی دیتے ہوں کون سے وہ مسلمان/طالبان ہیں؟ جو اس طرح کی وارداتیں کرتے ہیں۔
کیا یہ بہادری ہے کہ آپ نہتے کم سن پھولوں کو مسل کر اپنی بہادری کے جوہر دکھلائیں لعنت ہو اُن پر شدید ترین لعنت جو اِن واقعات میں ملوث ہیں جو ایسے واقعات کرنے والوں کیساتھ ذرا برابر بھی ہمدردی رکھتے ہوں اور جن کے ایسے واقعات کیساتھ مفادات وابستہ ہوں، سب پردنیا بھر کے انسانوں، اﷲ کی طرف سے لعنت ہو۔۔۔۔!روز روز کے ایسے واقعات معمول بن جانے کے بعد بھی اشرافیہ اور حکمران طبقہ کے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی تو پھر عام آدمی کو بتایا جائے کہ وہ کہاں جائے اپنی اولادوں، بال بچوں کو کہاں لیکر جائے؟ اور بتایا جائے کہ اس کے بعد مزیدکون سا سانحہ ہوگا؟۔اپنے اور اپنی اولادوں کے پروٹوکول پر ریاست کے اداروں کو مامور کرنے والے حکمران طبقہ کو اگر اب بھی اس سانحہ کے بعد بھی اپنے رویوں میںتبدیلی اور فرائض کی ذمہ داری کا خیال نہیں آتا تو ایک بات ضرور یاد رکھیں کل جب حشر کا میدان برپا ہوگا یہ کم سن تمہارے گریبانوں پر ہاتھ ڈال کر ذات کبریا سے سوال کریں گے کہ یہ بھی ہمارے مجرم ہیں جنہوں نے اپنے اصل فرائض سے غفلت برت کر ریاست کے تمام تر وسائل کو صرف اپنی حفاظت تک محدود کئے رکھا۔ لہذا اس واقعہ سے ہی کوئی سبق حاصل کریں اور پوری قوم اس واقعہ پر متحد ہوکر انسانیت کے دشمنوں کو انجام تک پہنچانے میں شامل ہو ۔اﷲ تعالیٰ سانحہ میں شہید ہونے والے معصوموں کے درجات بلند کرے لواحقین کو والدین کو صبر عطا کرے اور معصوم روحوں کے صدقے وطن عزیز کے حالات بہتر فرمائے آمین ثم آمین۔
تحریر: عقیل احمد خان لودھی