تحریر : بدر سرحدی
یوحناآباد میں گرجا گھروں پر خودکش حملے جن میں، ٢٠ ،لوگ ہی مارے گئے بظاہر ان کا ماسٹر مائنڈ ناکام ہوأ کہ جتنا بھاری نقصان کرنا تھا وہ نہیں ہوأاور اُس کے دو بمبار گویا ضائع ہوئے،لیکن دوسری طرف بہت بڑی کامیابی ملی کہ دوسرے دن قوم کی یکجہتی میں شدید دراڑ آگئی نیز مارے گئے ٢٠،افراد اور ١٠٠ سے زائد زخمی پس منظر میں چلے گئے اور انتظامیہ اور میڈیا کی تمام ہمدردیاں نفرت میں بدل گئیں کل تک جو مظوم تھے ظالم بن گئے اور ان ہی کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں ، حتیٰ کہ دھماکے کرنے والے دہشت گرد بھی پس منظر میں چلے گئے، مگر یہ سب کیسے اور کیوں؟تو یہاں بھی لوگ بڑی تعداد میں احتجاج کے لئے نکلے ان مظاہرین میں منڈیر ، یعنی دس سے بیس سال کے درمیان جو کسی کی سننے کو تیار نہیںتھے اِس ہجوم میں کوئی شناخت نہیں تھی کہ یہ سب ہی یوحنا آباد کے ،مگر کہا جاسکتا ہے فوٹج تو جھوٹ نہیں بول سکتیں درست ،مگر دہشت گردوں کے سہولت کار بھی اسی ہجوم میں خود کو چھپا اور بچا کر یہ آگ لگاکر غائب ہو گئے ، ۔ …اور محض ایک ہفتہ ہی میں بہت بڑی تعداد میںلوگوں کو پولیس اُٹھا کر لے گئی ،
یہ پولس کی قابلِ تعرف ٰ کارکردگی….. ، سانحہ کے سولویں دن جناب میاں شہباز شریف حاکم اعلےٰ پنجاب نے آئی جی پویس کو حکم دیا ہے کہ تفتیش میں کوئی بھی ملوث ہو کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہو سزا سے نہ بچ سکے خاص کر ملزموں کے سہولتکاروں کو کسی صورت نہ بخشا جائے ، (بے شک دہشت گردو ں کے سہولتکار خا موشی سے نکل جائیں) اور آئی جی نے انوسٹی گیشن کو حکم دیا کہ گرفتار١٢٠ ،افراد کی تفتیش میرٹ پر ہو ، صرف،١٢٠،حرا ست میں لئے گئے ملزموں سے ٢٦،ملزموں کو عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ لیکر تفتیش شروع کر دی ،عدالتی حکم سے پہلے یعنی ٣٠ ،مارچ تک ان دنوں کا کوئی حساب نہیں…. اب جو لوگ حراست میں ہیں اُن کا کوئی حساب نہیں ….اور جو ابھی تک لاپتہ ہیں ،
یہاں یہ سوال بھی ہے کہ پولیس کی حراست سے دوافراد چھین کر ہلاک کئے اور آگ لگائی انتہائی قبیح حرکت تھی کیوں اور کیسے ہوأ، پولیس کو بری الزمہ قرار نہیں ،اگر دو انسانوں کو بچا نہیں سکی تو پھر اُس کی ضرورت کیا تھی ، کیوں اور کس لئے آئی ؟؟؟ اگر گورنر کو اسکا محافظ گولی مار سکتا ہے تو یہاں محافظوں نے مظاہرین کو فری ہینڈ دے کر وہی فرض پورا نہیں کیا اب سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی بچ گئی ، …… اِسی آڑ میں پوری ریاستی مشینری مسیحیوں کو دیوار کے ساتھ لگانے میں ہمہ تن مصروف ہوئی،اب تفتیش یہ نہیں کہ دہشت گرد کیسے پہنچے جبکہ طالبان کی جماعت الاحرار نے یہ دمہ داری قبول کی ،مگر زور اسی پر رہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دو افراد کے قتل میں ملوث کیا جائے اور باقی لوگ خوف زدہ ہو کر نقل مکانی کر جائیں ،اور بین القوامی سطح پر یہ تاثر دیا جائے کہ یہ لوگ بھی دہشت گردجنہوں نے دو معصوم انسان جلائے ، یوں گرجا گھروںپر حملہ اور متاثرین کی آہیں دب گئیں، مجموعی طور پرکم و بیش تین سو خاندان متاثر ہیں ،اس وقت سب پس منظر میں کوئی پرسان حال نہیں . اور دوسری طرف دو ہفتوں کے بعد بھی غلاموں کی اس بستی میں بدستور اک خوف چھایا ہوأ ،لوگ سہمے ہوئے ہیں عجیب صورت حال ہے …..! ٢٧ دسمبر ٢٠٠٧، لیاقت باغ ر اولپنڈی دھماکے میں بے نظیر شہید ہوئیں رد عمل میں ٹرینیں جلائی گئیں توڑ پھوڑ سے اربوں کا نقصان نہ کہں پکڑ دھکڑ اور نہ کسی کو….، شانتی نگر جلایا گیا مگر بعد میں کوئی پکڑ دھکڑ نہ ہوئی….گوجرہ میں ٨ ،ذمی یا غلام جلا دئے کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی کہ یہ لوگ غلام تھے …. لیکن یوحنا آباد میں دھماکوں کے بعد ہجوم نے ردعمل میں پولیس کے قبضہ سے دو مشتبہ افراد چھین کر ہلاک کر دئے یہ تحقیق نہیں ہوئی کہ پولیس نے کیوں گرفتار کئے کیا شبہ تھا ،اگر اور وہ مشکوک تھے تو لیکر فوری نکل جاتے (اسی نقطہ پر تفتیش کی ضرورت …..)
مگر ایسا نہ کر کے مشتعل افراد کو جو صدمہ سے گویا پاگل ،انہیں موقع دیاتو قصور …. ، ،چناچہ غلاموں کی بستی سے پولیس نے رات کے اندھیرے میں گھروں سے لوگوں کو اغوا کرنا شروع کیا .. ..تفتیشی ایجنسیا ں کون ہیں ،ان سے غیر جانبداری کی توقع ….!؟ یہا ں یہ سوال ہے کہ مارے گئے یہ معصوم یہاں کیوں آئے جبکہ اس وقت یہاں دھماکوں کے بعد قیامت کا سما تھا …. چونکہ دھماکوں کے ماسٹر مائند کا پلان بری طرح ناکام ہو چکا تھا ،سہولت کار یہیں موجود تھے ،لہذا دوسرا پتہ کھیلا گیا کہ بازی الٹ جائے ….! اور افرا تفری پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے …. یہ تو ایک رخ تھا دوسرا رخ حکومت پر بھی بیک وقت دو گرجا گھروں پر دھماکوں کا پریشر تھا،نعیم اورنعمان کے واقع سے حکومت پر دباؤ میں کمی آئی….. ڈیڑھ سو کے قریب متاثر خاندان پس منظر چلے گئے اب آئیں ٥ نومبر ٢٠١٤ کو کوٹ رادھا کشن کے نواحی گاؤں چک ٥٩ کے اُس واقع کی طرف جس میں دو ذمی یا غلام یا اقلیت کہیں ہجوم نے اٹھا کر جلتے بھٹے میں پھینک دیا جس کی آگ کے تصور ہی سے انسان کانپ جاتا ہے جہاں انکی راکھ بھی نہیں ملی، ان کا جرم، جرم تو یہ کہ وہ غلام ابن غلام،دوسرا انہوں نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی.. ….بس یہی کافی ہے کہ مقدس اوراق کی بے حرمتی، کون تحقیق یا تفتیش کرتا ہے اٹھا کر بھٹے میں پھینک دواپنے ہاتھ جھاڑ دو بات ختم … اب ڈی پی اوقصور کے حکم پر پولیس فورس حرکت میں آئی اور نواہی گاؤں سے ،دو زندہ انسانوں کو پلک جھپکتے ہی راکھ میں تبدیل کر دیا
صرف ٤٧ ،افراد کو حراست می لیا ،(یہاں غلاموں کی بستی سے ایک ہلے میں ١٢٠، سے زائد لوگوں کو دن کے اجالے میں نہیں رات کے اندھیرے میں اغوا کیا …. )عینی شاہدین کے مطابق جب انہیں بھٹے میں پھینکا گیا تو وہ نیم مردہ حالت میں تھے…وزیر آعظم نے واقع کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلےٰ پنجاب سے رپورٹ طلب کی ،اور صوبائی حکومت کو ہدائت کی کہ زمہ داروں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ کی جائے ….١٠،نومبر ٢٠١٤،د ہشت گردی کی خصوصی عدالت نے صرف ٤،کے جسمانی ریمانڈ میں ٩ ،دن کی توسیع کی اور پھر ….!٢٣،نومبر ٢٠١٤،کو چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس ناصر الملک نے مسیحی جوڑے کو کوٹ رادھا کشن میں زندہ جلانے سے متعلق میڈیا رپورٹس پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے آئی جی پولیس اور سیکرٹری اقلیتی امور سے تین روز میں رپورٹ طلب کر لی۔
انتقام یا بدلہ کا جذبہ انسان میں فطری ہے تاریک دور میں جب ابھی مذہب پیدا نہیں ہوئے تھے ظالم اور مظلوم تب بھی تھے لیکن قانون و انصاف سے ابھی تک انسان نہ آشنا تھا لیکن انتقام یا بدلہ کا جذبہ تب بھی انسانوں میں موجود تھا ،اور پھر جب انسان نے ترقی کے مدارج طے کئے ….قانون و انصاف کے اجزائے ترکیبی نے ایک ادارے کے جنم لیا،بے ترتیب معاشرے اور جنگل کے قانون میں اک توازن پیدا ہوأ، مگر تب بھی طاقتور کا پلڑا بھاری رہا، اس طرح ہزروں صدیاں گزرنے کے بعد بھی جنگل کا قانون اپنی جدید شکل میں موجود ہے جس نے اپنے چہرے پر فرق فرق نقاب اوڑ ھے ہیں، اور انتقام کا خوبصورت نام انصاف پکارا جاتاہے، مگر مظلوم…… ہفتہ ٥،اپریل کو ڈسٹرکٹ بار ملتان میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منظور احمد ملک نے کہا ،یوحناآباد میں دو انسانوں کو نہیں بلکہ سسٹم کو جلایا گیا اگر عام آدمی تک انصاف بر وقت نہیں پہنچتا تو ایسے سانحات ہوتے رہیں گے،یہ محض چند الفاذ نہیں بلکہ انصاف کی ایک تاریخ بیان کی ہے ،پاکستا کی تاریخ میں کئی موقعوں پر سسٹم جلتا ہوأ دکھائی دیتا ……….!!!
تحریر : بدر سرحدی