تحریر : لقمان اسد
اخلاقیات نام کی کوئی چیز پاکستان کی سیاست میں ہرگز نہیں عہدہ اور اختیارات کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنا ہربااختیار پاکستانی اپنے فرائض کا پہلا نقطہ گردانتا ہے بڑے سے بڑا قانون یہاں کی اشرافیہ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا اس لیے کہ وہ قانون کی گرفت سے یکسر آزاد پیدا ہوئے اور آزاد مرنا ہی انہیں مقصود ہے۔
اس کا یہ حال ہے کہ آئے روز کوئی بگڑا ہوا رئیس زادہ کسی حوا کی بیٹی کو اپنی حوس کا نشانہ بناتا ہے پھر یہ قانون کے رکھوالے اس رئیس زادے سے پیسے بٹور کر اسے ہر فرد جرم سے آزاد کر دیتے ہیں اور الٹا اسی مظلومہ کی عزت اچھالنے میں مصروف نظر آتے ہیں تبھی تو انصاف سے مایوس مظفر گڑھ کی جواں سالہ لڑکی نے خود سوزی کرکے بھری عدالت میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی اوپر سے خادم اعلی اپنی سیاست چمکاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بلوچستان سے ایک ایسے آئی جی کو وہ لائے کہ جس کی کمانڈ میں سانحہ ماڈل ٹائون پیش آیا اور اس سانحہ کے ورثا آج تک بے رحم قانون سے انصاف کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں جب کہ انہیں علم نہیں کہ یہاں عام آدمی پیدا ہونا بھی ایک بھیانک جرم ہے اور گناہ کبیرہہے انہیں کون بتلائے کہ یہاں تو اشرافیہ کی سانسیں غریب لوگوں کے خون سے چلتی ہیں ان کے منہ کو آدمی کے خون کا ایسا چسکا ہے کہ ہر صبح سے شام تک درجنوں عام انسانوں کی لاشیں گر کر ان کے نامہ اعمال میں درج نہ ہوں تو بستر پر ان کو سکون کی نیند میسر نہیں آتی۔
وہ خادم اعلی جو بطور خاص کسی مجبور اور بے کس سے ہونے والی زیادتی کا نوٹس لیتے ہیں وہ کبھی اس طرف قدم نہیں بڑھاتے کہ وہ ایسے تھانہ کلچر کو گندکی ٹوکریوں میں اٹھا کر پھینک دیں کہ ان کے نوٹس لینے کا قیمتی وقت کسی اور خدمت پر صرف ہو دراصل تو یہ سیاست چمکانے کے بھونڈے طریقے ہیں کہ لوگ واہ واہ کریں دیکھیں جی کتنا مخلص وزیراعلی ہے کتنا بلند مرتبت خادم اعلی ہے۔میرا ایک دوست کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی ڈکشنری کسی زبان کی آپ اٹھا کردیکھیں کسی زبان میں لفظ خادم کے ساتھ اعلٰی نہیں لکھا ہوتا خادم اسے کہتے ہیں جو خدمت پر مامور رہتا ہے اسے اعلیٰ یا ادنی ٰسے غرض نہیں ہوتی۔
تین مرتبہ وزیراعلی ٰبننے والے خادم اعلی اپر پنجاب کے اضلاع کے علاوہ باقی کے پنجاب کو پنجاب کا حصہ نہیں سمجھتے انہوں نے سرائیکی خطہ کی محرومیوں اور جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے والوں کو اعلانیہ باغی اورغدار ایسے القابات سے نوازا۔تین مرتبہ وزارت اعلی کے منصب پر براجمان ہونے کے باوجود پورے سرائیکی خطہ میں کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں ان کی ساری خدمات اپر پنجاب اور بطور خاص آبائی ضلع لاہور کیلئے وقف ہیں۔
یہ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ خادم وہ اپر پنجاب کے ہیں اور اعلی وہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی خطہ کیلئے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹائون جب پیش آیا تب انہوں نے خود آن دی ریکارڈ کہا کہ جوڈیشل کمیشن اس واقعہ کی انکوائری کرے گا اس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے مجھے نامزد کیا تو میں اپنی منصب سے سبکدوش ہو جائوں گا۔
جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدیا گیا جب رپورٹ آئی تو اس رپورٹ میں درجنوں افراد کو اس واقعہ کا ڈائریکٹ ذمہ دار ٹھہرایا گیا جس میں بطور خاص خادم اعلی کا نام بھی شامل تھا مگر وہ اخلاقیات اور اپنی کہی گئی بات کو بھلا کر سب کچھ سے مکر گئے۔مکرر عرض ہے کہ اخلاقیات نام کی کوئی چیز پاکستان کی سیاست میں ہر گز نہیں۔
تحریر : لقمان اسد