تحریر: حبیب اللہ سلفی
حج کے موقع پرمنیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے پیش آنے والے سانحہ میں شہید ہونے والے حجاج کرام کی تعداد 769 ہو چکی ہے جن میں انیس پاکستانی ہیں۔ اسی طرح کئی حجاج کرام تاحال لاپتہ ہیںجنہیں تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔برطانوی اخبار گارجین نے سانحہ منیٰ میں دو سو تیس پاکستانیوں کی شہادت کا دعویٰ کیا ہے البتہ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سعودی حکومت نے تمام ہسپتالوں و مردہ خانوں تک رسائی دے رکھی ہے اور شہید ہونے والوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے وزارت خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کو ہدایت کی ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور اس سلسلہ میں ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔ ادھر سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ہم سعودی حکومت سے مسلسل رابطے میں ہیں اور پاکستانی شہریوں کی شناخت کے بعد ان کی مکہ مکرمہ میں ہی تدفین کی جائے گی۔ ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے گذشتہ برسوںسے کئی گنا زیادہ انتظامات پر سعودی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا اور اس سانحہ کو بعض حجاج کرام کی عجلت پسندی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
سعودی عرب میں حج کے دوران چند دن قبل کرین حادثہ اور اب سانحہ منیٰ کے باعث پوری مسلم دنیا غم کی کیفیت میں ہے۔ عیدالاضحی کے ایام بھی انہی حالات میں گزرے۔نماز عید الاضحی کے اجتماعات میں شہداء کیلئے بلندی درجات اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خصوصی دعائیں کی گئیں جبکہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمان میڈیا رپورٹس اور دیگر ذرائع سے اس المناک سانحہ کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ جن کے پیارے حج بیت اللہ کی سعادت کرنے گئے ہیںاورانہیں ابھی تک ان کی خیریت کا معلوم نہیں ہو سکاوہ یقینی طور پر بہت زیادہ پریشانی سے دوچار ہیں اورپاکستانی حکام کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وزارت حج سمیت تمام متعلقہ اداروں کو اس سلسلہ میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں اور لاپتہ افراد کی مکمل معلومات جلد از جلد منظر عام پر لانی چاہئیں تاکہ لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی ختم ہو سکے۔ منیٰ میں جمرات (شیطان) کو کنکریاں مارتے ہوئے بھگدڑ سے ساڑھے سات سو سے زائد افراد کی شہادت اب تک اس نوعیت کاسب سے بڑا واقعہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جمرات ڈبل سٹوری تھااور ہر سال حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ناکافی ہو چکا تھا جس سے حج کے موقع پر بھگدڑ کی وجہ سے سینکڑوں افراد شہید ہو جاتے تھے تاہم سعودی حکومت نے ایسے حادثات کی روک تھام کیلئے جمرات کی توسیع کرتے ہوئے سو اچار ارب ریال کی لاگت سے وادی منیٰ میں 950 میٹر طویل اور 80 میٹر چوڑا پانچ منزلہ جمرات پل کمپلیکس تعمیر کیااور یہاں آنے اور واپس جانے کیلئے 12علیحدہ علیحدہ داخلی و خارجی راستے بنادیے ہیں جس پر یہاں ایک گھنٹے میں تین لاکھ افراد کے رمی کرنے کی گنجائش پید اہو گئی ہے۔
2006ء میں رمی جمرات کے موقع پر بھگدڑ کے نتیجہ میں 346حجاج کرام شہید ہو گئے جس پر شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے حکم پر اس کثیر المنزلہ منصوبے کا آغاز کیا گیااور اس کا گرائونڈاور فسٹ فلور اگلے سال حج سے قبل تیار کر لیا گیا تھا جس کے بعد یہاں رونما ہونے والا یہ پہلا حادثہ ہے۔سعودی وزارت بلدیات و دیہی ترقی نے امسال شیطان کو کنکریاں مارنے کیلئے جانے والے بزرگ، معذور ، کمزور و بیمار افراد اور خواتین کی سہولت کیلئے 226الیکٹرک گاڑیاںبھی مہیاکیں جن سے ستر ہزارکے قریب افرادنے استفادہ کیا۔سعودی وزارت حج کی جانب سے تمام معلمین کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ کنکریاں مارنے کے لئے حجاج کو طے شدہ ٹائم شیڈول کے مطابق روانہ کیا جائے تاکہ جمرات پل پر اکٹھے ہونیو الے ہجوم کو کنٹرول کیا جاسکے۔
حج بیت اللہ کے ایام میں جمرات کے پلوں کے یہ راستے ون وے پیدل سڑک کی صورتحال اختیار کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں حجاج کرام انتہائی سہولت کے ساتھ ایک جانب سے جمرات میں کنکریاں مارتے ہیں اور آگے بڑھتے جاتے ہیں’ انہیں پیچھے آنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بہت سے مسلمان سعودی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈالنے کا سبب بنتے ہیں۔امسال حج کی سعادت حاصل کرنے والے وہ افراد جو اس حادثہ کے وقت وہاں موجود تھے ‘ ان کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی منیٰ میں یہ سانحہ اسی وجہ سے پیش آیا ہے۔ افریقی ملک الجزائر کے حجاج جن کی اکثریت طویل القامت اور قوی الجسم ہوتی ہے’ کے متعلق کہا جارہا ہے کہ ان کے ایک گروپ نے سعودی حکومت کی ہدایا ت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی ہجوم کی مخالف سمت چلنے کی کوشش کی اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے دوسری جانب سے آنے والے لاکھوں حجاج سے ٹکرا گیا۔
اسی طرح بعض میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک اور ملک سے وابستہ حاجیوں کے ایک گروپ نے اپنے لئے مخصوص خیموں میں سامان وغیرہ رکھ کر رمی ختم ہونے کا انتظار نہیں کیاااور الٹے پائوں واپس چلنا شروع ہو گئے جبکہ واپسی کا یہ وقت دوسرے حج مشن کے لئے رمی جمرات کے نکلنے کے لئے مخصوص تھا جس کی وجہ سے ان کے آمنے سامنے آنے سے وہاں سخت گھٹن پیدا ہوگئی اور جب لوگوں نے پریشانی میں وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو بھگدڑ مچ گئی جس پر یہ سانحہ پیش آیا ہے۔بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایات پر پچھلے برسوں کی نسبت اس مرتبہ کہیں زیادہ انتظامات کئے گئے تھے جن پر حجاج کرام انہیں خراج تحسین پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں البتہ اس کے باوجود اگر اس نوعیت کا سانحہ پیش آیا ہے تو اس میں سعودی حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ ہماری عجلت پسندی کی وجہ سے ہے جو عمومی طور پر ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔
بعض عاقبت نااندیش لوگ سوشل میڈیا پر سعودی عر ب کو اس حادثہ کا ذمہ دار ٹھہر اکرمملکت السعودیہ کے نائب وزیر اعظم اور حج کمیٹی کے سربراہ شہزادہ محمد بن نائف کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور بے پر کی اڑائی جارہی ہیں کہ شیطان کو کنکریاں مارتے وقت ایک راستہ بند تھا جس کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا ہے۔ یہ روش کسی طور درست نہیں ہے۔ حج کے دوران شہادتوں کے مسئلہ پر ہمیں کسی قسم کی سیاست یا باہمی اختلافات سے گریز کرنا چاہیے۔
ادھرایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران منیٰ میں بھگدڑ کے حوالہ سے سعودی عرب پر تنقیدکی ہے۔ اسی طرح بعض دیگر ایرانی حکام نے بھی سعودی انتظامیہ پر ناقص انتظامات کا الزام لگایا ہے جبکہ سعودی مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ کا کہنا ہے کہ حج کے دوران اس نوعیت کے سانحات کو روکنا انسانی اختیار سے باہر ہے اور اس میں انتظامات یا حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے جو چیزیں انسانی کنٹرول میں نہیں ہیںاس کیلئے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتاالبتہ ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم اور اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہمارے ملکوں سے جو لوگ حج بیت اللہ کی زیارت کیلئے جاتے ہیں۔
ان کی اس انداز میں تربیت کی جائے کہ وہ سعودی حکومت کی جانب سے حادثات سے بچنے کیلئے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کریں اور انتظامیہ کی جانب سے طے کئے گئے ضابطہ اخلاق کی ہرگز خلاف ورزی نہ کریں ۔ حج اسلام کا عظیم عمل ہے جس کا مقصد قرب الہٰی کا حصول ہے۔ حج کیلئے جانے والے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات نقش ہونی چاہیے کہ اسے دوسروں کیلئے مشکلات نہیں بلکہ آسانی پیدا کرنا ہے۔ اگر ہم سعودی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل نہیں کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم پورے سسٹم کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں اور اللہ کے گھر بیت اللہ آنے والے مہمانوں کیلئے مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
جب تک ہم اپنے ملکوں سے جانے والے معزز حجاج کرام کی صحیح معنوں میں تربیت نہیں کریں گے سعودی حکومت کی جانب سے جس قدر مرضی بہتر انتظامات کر لئے جائیں ایسے حادثات کا خطرہ بہرحال موجود رہے ہیں اس لئے ہمیںدوسروں پر تنقید کی بجائے سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے بہرحال خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزجو سانحہ منیٰ کے فوری بعد وہاں پہنچے اور ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد حجاج کی حفاظت کیلئے کئے جانے والے انتظامات پر نظر ثانی کا حکم دیا۔
وہ بذات خود اس سارے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔سعودی ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد نائب کی زیر صدارت ہنگامی اجلاس میں تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جو جلد اس حوالہ سے تفصیلی رپورٹ مرتب کر کے اعلیٰ حکام کو پیش کرے گی۔سانحہ منیٰ میں پاکستان، ایران، الجزائر اور دیگر کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام شہید ہوئے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے۔ آمین۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005