تحریر : عقیل خان
اتوار کے دن جس وقت کوارٹر فائنل کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے پاکستان آور آئرلینڈ ایک دوسرے کوزیر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے اسی دن دوسری طرف دہشت گرد بھی اپنی حکمت عملی بنانے میں مصروف تھے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ملک دشمن قوتوں کو پاکستان کی کوئی خوشی قبول نہیں۔ جس وقت پاکستان آئرلینڈ کو شکست دینے کے قریب تھا اسی لمحے دشمن وطن نے اپنی چال چل دی۔ ایک طرف پاکستان کے مختلف شہروں میں پاکستان کی جیت کا جشن منایا جارہا تھا تو دوسری طرف لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں صف ماتم بچھا ہوا تھا۔
واقعہ کچھ یوں ہے لاہورکے علاقے (یوحنا آباد) میں یکے بعد دیگر دودھماکے ہوئے۔دھماکوں کے وقت کیتھڈرل اور کرائسٹ چرچ میں 500سو سے زائد افراد چرچ میں موجود تھے۔ اتوارہونے کی وجہ سے چرچ میں معمول کی عبادت جاری تھی کہ اسی دوران دو مشکوک افراد نے زبردستی چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ سیکیورٹی گارڈز نے دونوں کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کے بعد ہر طرف بھگدڑ مچ گئی ۔دھماکے کے بعدسیکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لیا۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ سے ایک مشکوک شخص کو بھی حراست میں لے لیا۔ نامعلوم شخص نے پہلے فائرنگ کی اور اس کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔اس کے بعد ریسکیوٹیموں نے زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا۔
یہ واقعہ اتنا افسوسناک ہے کہ اس پر جتنا بھی غم و غصہ کا اظہار کریں کم ہے۔تمام مسلمان دکھ کی اس گھڑی میں مسیحی برادری کے ساتھ برابرکے شریک ہیں ۔درحقیقت دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ پاکستان کی دشمنی میں کسی بھی فرقے اور مذہب کے لوگوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دہشت گردوں نے مساجد، مدرسے اور نہ ہی چرچ چھوڑے ۔ان کو جہاں موقع ملا انہوں نے ملک دشمنی کا واضح ثبوت پیش کیا۔بدقسمتی سے دہشت گروں نے اس بار مسلمان اورمسیحی برادری کو آپس میں لڑانے کی ناکام کوشش کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک دشمن قوتیں کبھی فرقہ واریت تو کبھی مذہب کے نام پر لڑانے کی پہلے بھی ناپاک کوشش کرتی رہی ہیں۔
پاکستان میںدھماکے تو کافی عرصہ سے ہورہے ہیں اور ان دھماکوں میں ہم نے بہت سی جانوں کا قیمتی نقصان اورصدمہ اٹھایا مگر یوحنا آباد دھماکوں کے بعد جو واقعہ پیش آیا اس نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ انسانیت کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ آج تک دھماکوں کے وقت یا پکڑے جانے کے ڈر سے ہشت گردوں کو خودکو بم سے اڑاتے یا سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مارے گئے تو سنا تھا مگر پہلی بار دیکھا کہ مظاہرین نے دہشت گردوں کے نام پردولوگوںکو پکڑ کر زندہ جلا دیا۔ یوحنا آباد میں دو لوگوں کو پکڑ کرزندہ جلانے کا واقعہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر رنگ کی تصویر موجود ہے۔ انسان کھڑے ہوکر دوسرے انسان کو زندہ جلتے نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ اس کی ویڈیو اور تصاویر بنا رہا ہے۔
ابھی ضلع قصور کے شہر کوٹ رہاداکشن میں ہونے والا واقعہ لوگوں کے ذہین سے نکلا نہیں ہے۔ آج بھی اُس شہر میں عوام پولیس سے چھپتی پھر رہی ہے۔ جولوگ شک کی بنیا د پر پکڑے گئے آج تک ان کی ضمانت نہیںہوئی۔ توہین رسالت کے شک کی بنیاد پر جلائے جانے والی شمع اور اس کے شوہرکے واقعے پر ہر مسلمان نے آواز بلندکی ۔ مسیحی برادری کے شانہ بشانہ ہر جگہ احتجاج کیا۔ابھی اس واقعے کی دھول بیٹھی نہیں تھی کہ آج پھردو انسانوں کو زندہ جلادیا۔ جن میں سے ایک شخص کی پہچان بھی ہوگئی ہے۔ڈی این اے ٹیسٹ نے ثابت کردیا کہ زندہ جلایا جانے والاوہ نوجوان ضلع قصور کے شہر للیانی کا رہائشی ہے۔جس کا نام محمدنعیم ہے اوروہ شیشے کا کاروبار کرتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ اس دن یوحنا آباد کسی کے ہاں شیشے کا کام کرنے گیا تھا۔دھماکے ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنا کام بند کرکے واپس اپنے گھر آرہا تھا کہ اس دوران مظاہرین نے اس کوپکڑلیا اور پھر اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ لکھتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔
ایک سوال ہے جس نے شکوک و شبہات کوجنم دیا وہ یہ ہے کہ دھماکے کے بعدجب اس جگہ پر پولیس پہنچ گئی تو مشتعل افراد نے نعیم کو اتنا زدو کوب کرنے کے بعد نظرِ آتش کیسے کر دیا ؟پولیس کی موجودگی میںسرِ عام مین روڈ پر دو اشخاص کو نظرِ آتش کر دیا جاتا ہے اوربہت سے لوگ اْن جلتے ہوئوں کی وڈیو اور تصاویر بنانے میں مصروف ہیںپھر پولیس تماشائی بنی دورکیوں کھڑی رہی ؟دور حاضر میں جہاں ملک میں مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہے ہر چیز مہنگی ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ کچھ لوگ اس واقعے کو سانحہ کوٹ رھاداکشن کا ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔سانحہ کوئی بھی ہے مگر ہمارا ملک اس بات متحمل نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر خدانخواستہ یہ سانحہ کوٹ رھاداکشن سانحہ سے ملادیا تو ملک بھر ایک نئی آگ پھیل جائے گی۔حکومت پاکستان کو فوری طور پر مذہب سے بالا تر ہوکر اس واقعے میںملوث افراد کو کیفے کردارتک پہچانا چاہیے۔ ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ اگر عوام کسی بھی غم سے نڈھال ہو کر یا مشتعل ہو کر حکومتی املاک کا نقصان کرتے ہیں تو وہ دراصل ہمارا اپنا نقصان ہے کیونکہ پاکستانی ہر شے عوام کے ٹیکسوں سے بنی ہے خواہ وہ ہوائی اڈے ہوں ، بس اسٹاپ ، یا ریلوے اسٹیشن یا حکومتی عمارات دراصل ہم خود اپنا نقصان کرتے ہیں عین ویسے ہی جیسے گھر کا چراغ گھر کو آگ لگا دے۔ ہمیں پر امن مظاہرے کرنا چاہیئں اور یہ ہمارا حق بھی ہے۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com