کھیلوں کے میدانوں میں جذبہ، جنون اور آگے بڑھنے کی جستجو نظر آتی ہے.
عظیم اتھلیٹس اولمپکس، کامن ویلتھ گیمز سمیت کسی ایونٹ میں فتح و کامرانی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہیں تو اپنے وطن پہنچنے کے اگلے ہی روز اگلے معرکے کی تیاریوں میں جت جاتے ہیں، شب وروز کی محنت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے غیر معمولی کھیل سے ملک وقوم کا نام روشن کرتے نظر آتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس ہمارے ہاں دوسرے شعبوں کی طرح کھیلوں کے میدان میں بھی الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے.
ہمارے کھلاڑی اولمپکس سمیت دوسرے میگا ایونٹس کے لئے کوالیفائی کرنے میں ہی کامیاب نہیں ہو پاتے اور اگر بھولے بسرے سے کوئی یہ ہدف حاصل کرلے یا وائلڈ کارڈ انٹری کے ذریعے کسی میگا ایونٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس کے ساتھ فیڈریشن کے صدر،سیکرٹری یا دوسرے عہدیدارکوچ یا منیجر کی آڑ میں دنیا کے سیرسپاٹے کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز میں اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔
کتنے دکھ اورافسوس کی بات ہے کہ سالہا سال سے ملک بھر کی کھیلوں کی باگ ڈورایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کاکھیلوں کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے، یہی شخصیات ٹیموں کے انتخاب میں اپنی من مانیاں کرتی ہیں ،فنڈز کا بے دریغ خرچ کرتی ہیں، اپنے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کو نوازتی ہیں اور واپسی پر ناکامی کا سارا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتی ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ20 کروڑ کی آبادی پر مشتمل پاکستان اولمپکس میں گزشتہ 26 برس سے ایک بھی میڈل نہیں جیت سکا، زیادہ دور جانے کی بات نہیں، حال ہی میں آسٹریلیا میں شیڈول کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان مجموعی طور پر صرف 5 ہی میڈلز ہی جیت سکاجبکہ آبادی اور وسائل میں ہم سے بہت پیچھے رہ جانے ممالک تمغوں کی دوڑ میں ہم سے بہت آگے تھے، محمد انعام کے ایک گولڈ کے بعد ہم نے دنیا بھر کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا ہم نے کوئی بہت بڑا معرکہ یا قلعہ سر کر لیا ہو۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہمارے وفاقی وزیر کھیل ریاض پیر زادہ نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے کھیل کے روبرو یہ بیان دیا کہ ملک میں کھیلوں کی ترقی کے لئے قائم پاکستان اسپورٹس بورڈ کا سالانہ بجٹ ایک ارب روپے ہے جس میں سے آدھا بجٹ پی ایس بی کے ملازمین کی تنخواہوں میں نکل جاتا ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے کھیلوں کی مد میں ہر شہری پر سالانہ 5 روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔
پاکستان سپورٹس بورڈ سے یاد آیا، اس ادارے میں کرپشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سابق ڈائریکٹر جنرل ٹیموں کو این او سی اسی شرط پر ہی جاری کرتا تھے کہ انٹرنیشنل ایونٹ میں قومی دستے کے ساتھ وہ بھی ہمراہ ہوں گے۔ ایشن گیمز کی آمد آمد ہے، اگست میں انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں شیڈول ایشیائی گیمز کا حصہ بننے والے ممالک میڈلز کے حصول کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں لگنے والے تربیتی کیمپس تک ختم کر دیئے گئے ہیں اور کھلاڑی اپنے اپنے طور پر تیاریاں کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان فٹبال فیڈریشن نے تو پاکستان سپورٹس بورڈ کی مالی مدد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت لاہور میں کیمپ کا آغاز کیا ہے جس میں برازیلین کوچ اور ٹرینر کھلاڑیوں کو صبح اور شام کے سیشنز میں ٹریننگ دے رہے ہیں۔ پاکستان ہاکی ٹیم تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے بعد اولمپکس کی دوڑ سے بھی باہر ہوئی تو اس وقت کے کپتان محمد عمران کا کہنا تھا کہ نان اور چنے کھا کر عالمی چیمپئن بننے کے خواب نہیں دیکھے جا سکتے۔
محمد عمران کے اس بیان میں کافی حد تک صداقت اس لئے بھی ہے کہ جب ہم پلیئرز کو انٹرنیشنل سطح کی سہولیات اور وسائل ہی نہیں دیں گے تو ہم ان سے عالمی مقابلوں میں میڈلز کے حصول کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔