تحریر : مولوی محمد صدیق مدنی
کسی فارغ لمحے ہم بچے کو پاس بلاسکتے ہیں نرمی اور محبت سے اس عادت کا اس سے ذکر کریں اور اسے بتائیں کہ آئیے مل کر اس عادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اگر بچہ دست تعاون دراز کرے تو کام آسان ہوجائیگا۔عادات سے مراد ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اندر رچ بس جاتی ہیں اور پھر ان کو بدلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ نوجوانوں کی طرح بچے بھی اچھی یا بری باتیں اپنا لیتے ہیں اور جب ہم چاہتے کہ بری عادت والا بچہ اچھی عادت اپنالے تو ہمیں کامیابی نہیں ہوتی۔اب دیکھئے ناخن کاٹنا یا بے ہنگم طریقے سے چلنا کوئی سماجی برائی نہیں تاہم ان عادات کی حوصلہ افزائی بھی تو نہیں کی جاسکتی اسی طرح دوسری عادات ہیں مثلاً دوسروں کے سامنے ڈھور ڈنگروں کی طرح کھانا’ سب کے سامنے زور زور سے ناک صاف کرنا’ یہ سماجی برائیاں ہیں’ ان کو دور کرنا ضروری ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتے ہیں؟
یقینا اگر کسی برائی کو شروع سے ہی پکڑلیا جائے تو اسے دور کرنا آسان ہوجاتا ہے مگر اس کی طرف ہم مطلقاً توجہ نہیں دیتے اور اگر توجہ دیتے بھی ہیں تو یہ عادات جبر سے چھڑانا چاہتے تو کوئی مشکل بات نہیں ہے مگر اس کیلئے خوب سوچ بچار کرنی پڑے گی اور مسئلہ پر خوب غوروخوض کرنا ہوگا۔ عادت کی نوعیت کو جاننا ہوگا۔ جائزہ لینا ہوگا کہ بچے سے اس عادت کو دور کرنے کیلئے ہم نے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اگر ہمیں کامیابی نہیں ہوتی تو ہمیں کیا کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔جب بچے ذرا بڑے ہوجائیں تو بجائے اس کے کہ ہم ڈانٹ ڈپٹ کرکے ان کی بری عادات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ بہتر یہ ہوگا کہ ان سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کی جائے۔کسی فارغ لمحے ہم بچے کو پاس بلاسکتے ہیں نرمی اور محبت سے اس عادت کا اس سے ذکر کریں اور اسے بتائیں کہ آئیے مل کر اس عادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اگر بچہ دست تعاون دراز کرے تو کام آسان ہوجائیگا۔ اس کیلئے ہمیں خود بھی اپنی عادات کو بدلنا ہوگا ورنہ ہمارا وعظ و تلقین بالکل غیر موثر ہوکر رہ جائیگا۔
ایک شخص نے اپنی بچی کے ساتھ پروگرام بنایا کہ اگر ان میں سے کوئی پارلیمانی زبان استعمال کرے تو دوسرا اسے ٹوک دے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا اور اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ تجارت اور خریدوفروخت میں بھی اگر اس امر کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی ایک دوسرے کو ٹوک دے تو دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ ایک بڑی سماجی خدمت ہے۔ اگر بچوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ ہماری غلطیوں سے بھی ہمیں آگاہ کرتے رہیں۔ تو بچے کبھی بھی یہ تاثر نہیں لے سکتے نہ لیں گے کہ ان کو خواہ مخواہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی رہتی ہے اور انہیں موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ایک شخص نے گندی زبان استعمال کرنے سے بچنے کی ایک انوکھی ترکیب نکالی۔ اس نے بچوں کو بھی سمجھایا کہ عام محفل میں کبھی گندی زبان استعمال نہیں کرنا ہوگی۔ ہاں عادی ہونے کی وجہ سے اگر کوئی لفظ زبان پر آجائے تو فی الفور ”چھکڑے” کا غلط استعمال کرو۔ اس طرح سب سے پہلے اس نے غصے کے موقع پر یہی لفظ استعمال کیا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پورے خاندان میں سے یہ عادت جاتی رہی۔
اس سلسلہ میں خاموش مزاح بھی بڑا فائدہ مند ثابت ہوا ہے مثلاً کوئی بچہ یا گھر کا کوئی فرد کھانا کھاتے وقت چپ چپ کی آوازیں نکالتا ہے یا کھانے پر مکھی کی طرح گرتا ہے’ بچے سے یہ بری عادات چھڑوانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ خاندان کے لوگ ویسی آوازیں نکالنا شروع کردیں اور خود بھی اس کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑیں گے اور یقینا سب ہنس پڑیں گے اور بچہ زچ ہوکر اس بری عادت سے باز آجائے گا۔آپ صدر دروازے پر اپنا ایک ایسا سکیچ چسپاں کردیں جس میں آپ درد کے مارے کراہ رہے ہوں۔ آپ کا بچہ جو دروازہ زور سے بند کرنے کا عادی ہے نفسیاتی طور پر متاثر ہوگا اور دروازہ آہستگی سے بند کریگا یا اگر آپ نہانے کے ٹپ پر یہ فقرہ لکھ دیں کہ گندے پانی میں نہانا کوئی اچھی بات نہیں۔ ضرور اثرانداز ہوگا اور بچہ پانی کوگندا نہیں کرے گا۔
اگر بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے تو بری عادات چھوڑنے کے سلسلے میں یہ چیز ان کیلئے بے حد ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر بچے کو یہ احساس دلایا جائے کہ اب وہ اتنا بڑا ہوچکا ہے اسے یہ بات نہیں کرنی چاہیے تو اس کے نتائج بھی بہتر برآمد ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر تین سال کے بچے کو بھی یہ کہا جائے بیٹے تم ابھی بڑے ہوچکے ہو ایسا نہیں کرنا’ تو یقینا وہ اس سے اچھا اثر لے گا اور جو حرکت کررہا ہے اس سے کنارہ کشی کرلے گا۔بچے کے ناخن کاٹنے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان میں بور ہونا یا کسی چیز کے حصول کیلئے بے تابی بھی ہے اگر اس کو مسئلہ بنالیا جائے تو اس کے الٹے نتائج بھی برآمدہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ بچے کو ہاتھوں کی خوبصورتی کا احساس دلایا جائے۔ اسے بتایا جائے اس طرح خوبصورت ہاتھ بدصورت ہوجاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی بدمزہ چیز پر اچھا سا رنگ کرکے اسے کھانے کی نقل کی جائے تو اس سے بھی بچہ سمجھ جائیگا۔ ہاں ایک اور طریقہ یہ بھی ہے بچے سے کہا جائے ”بیٹا سارے ناخن نہیں کاٹنے ایک چھوڑ کر باقی بے شک کاٹو اس کے بعد تعداد کو بڑھاتے جائو ‘ بچہ یہ عادت چھوڑ دیگا۔
بچوں میں ایک بری عادت بے ترتیبی کی بھی ہوتی ہے’ کھلونے لیتے ہیں ان سے کھیلتے ہیں اور انہیں وہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اسی طرح کپڑوں کا معاملہ ہے اگر تو بے ترتیبی بچے کی فطرت کا حصہ ہے تو اسے ختم کرنا مشکل ہے اس عادت پر بچے کو لعنت ملامت کرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں بچے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس عادت پر نہ کڑھیں۔ اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول رکھیں۔بچے سے بری عادات چھڑوانا وقت چاہتا ہے اسے وقتاً فوقتاً نصیحت کرتے رہنا چاہیے مگر اس کے پیچھے پڑجانا مناسب نہیں۔ ناخن کاٹنے والے بچے کو یہ کہا جاسکتا ہے بیٹا تمہارے ناخن کس قدر خوبصورت ہیں مجھے یہ بڑے پیارے لگ رہے ہیں’ اس طرح بچہ یہ عادت بھی چھوڑ دے گا۔کپڑے یا کھلونے بچہ بے ترتیبی سے ادھر ادھر رکھ دیتا ہے تو سمجھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کہا جائے۔ ”واہ واہ یہ کپڑے کتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ہیں یا کھلونے کیسے پیارے ہیں ان کو ترتیب سے صاف جگہ پر رکھنا چاہیے آپ خود انہیں ان کی جگہ پر رکھ دیں تو بچہ اس سے سبق حاصل کریگا اور اپنی یہ عادت بدل لے گا۔
تحریر : مولوی محمد صدیق مدنی