لاہور (ویب ڈیسک) میں نے سوچ رکھا تھا کہ ریلوے بارے نہیں بولوں گا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں شیخ صاحب یا خان صاحب سے ڈرتا ہوں بلکہ خیال تھا کہ موجودہ حکومت کو مکمل موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے وژن اور منشور کے مطابق اداروں کی بہتری کے لئے عمل کر سکے نامور کالم نگار نجم ولی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیا معیشت کی طرح ریلوے میں بھی ہم درست سمت میں سفر کر رہے ہیں، نہیں ہرگز نہیں ۔میرا دل ان تصویروں کو دیکھ کر پھٹا جا رہا ہے جوصادق آباد کے ولہار اسٹیشن پر اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی کے درمیان تصادم کی ہیں، سولہ سے زائد مسافر شہید ہو گئے، پچاسی سے زائد زخمی ہوگئے۔ مجھے علم ہے کہ آپ پوچھیں گے کہ کیا تمہارا دل سعد رفیق کے دور میں ہونے والے حادثوں کی تصویریں دیکھ کر بھی پھٹتا تھا یا اس دل کو جناب عمران خان کے دل جیسی کوئی سہولت دستیاب ہے تو جواب ہے کہ ہاںاس وقت بھی ایسے ہی کرب اور اذیت کا سامنا ہوتا تھا مگر اس کے بعد ہم سب چاہے وہ خود خواجہ سعد رفیق ہوتے تھے، جناب جاوید انوراور عبدالحمید رازی سمیت دوسرے، بہتری کے لئے جُت جاتے تھے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ حادثہ انسانی غفلت کا نتیجہ ہے جو سوفیصد درست بات ہوسکتی ہے مگر کیا یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ دو برس پہلے ہونے والے حادثات کے بعد ریلوے کے سگنل سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے جو پراجیکٹس تھے وہ کہاں ہیں۔ کیا یہ احساس تکلیف دہ اور اذیت ناک نہیں ہے کہ ریلوے کے آپریشنزاور وسائل صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ ریلوے کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے خسارے سے نکالا جائے تاکہ اس پر ہونے والی تنقید کا منہ بند کیا جا سکے اور دوسری ضرورت اس کے انفراسٹرکچر کے اپ گریڈیشن کی ہے ۔خواجہ سعد رفیق کے دور میں ریلوے کی آمدن اٹھارہ ارب روپے سالانہ سے بڑھ کر پچاس ارب تک پہنچ گئی۔ بہت سارے سیکشن اپ گریڈ ہوئے، نئے شاندار ریلوے اسٹیشن بنے۔ مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جب میاں نواز شریف موٹرویز پر اربوں روپے خرچ کر رہے تھے تو انہیں ریلوے کی بحالی کے لئے بھی ایک خصوصی پیکج دینا چاہیے تھا مگر ریلوے ان کی ترجیحات میں دور، دور تک نہیں تھاتاہم اس کے باوجود سابقہ دور میں ریلوے کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا رہا تھا، بوگیوں کی اپ گریڈیشن کر کے ان کی لائف میں اضافہ کیا جا رہا تھا، گندی مندی ٹرینوں کو صاف ستھرا کیا جا رہا تھا۔ ریلوے کے پاس اضافی کوچز موجود تھیں اور جب کبھی جس بھی ڈویژن میں کسی کوچ میں کوئی ایشو آتا تھا متبادل کوچ فراہم کر دی جاتی تھی، ایک بار پھر وہ وقت آ گیا تھا کہ ٹرینوں کی روانگی دیکھ کر گھڑی ٹھیک کی جا سکتی تھی۔شیخ رشید صاحب صرف اور صرف اپنے باسز کو خوش کرنے کے لئے ٹرینوں پر ٹرینیں چلاتے جا رہے ہیں اور ایک بیان میں یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ چالیس تک نئی ٹرینیں چلائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان ٹرینوں کے لئے بوگیاںکہاں سے آئیں گی تو ا س کا جواب یہ ہے کہ اضافی دس فیصد بوگیاں استعمال ہوں گی مگر اس کا اگلا سوال یہ ہے کہ جب اضافی دس فیصد بوگیاں بھی زیر استعمال ہوں گی تو کسی بھی ایمرجنسی میں بوگی کہاں سے آئے گی، کیا آپ خراب اور خطرناک بوگیاں ہی چلاتے رہیں گے۔بات اضافی دس فیصد بوگیوں سے آگے نکل چکی ہے ، وہ تمام ٹرینیں جو ریزرویشن پر نہیں ہیں اور برانچ لائنوں پر چلتی ہیں ان کی بوگیاں اتار لی گئی ہیں اور اگر کسی نے اس صورتحال بارے پوچھنا ہے تو لاہور نارووال سیکشن کے مسافروں سے پوچھے، لالہ موسی، فیصل آباد، ملتان روٹ والوں سے پوچھے، ایم ایل ٹو اور تھری کی ٹرینوں کے بارے جانے کہ کیسی اُجڑی پُجڑی چل رہی ہیں۔ کیا ستم ہے کہ محض عمران خان کو خوش کرنے کے لئے ٹرینوں پر ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں، نہ ٹرینوں کی بزنس فزیبلیٹی چیک کی جاتی ہے اور نہ ہی ٹریک کی صورتحال، ایک ٹرین جناب صدر مملکت کو خوش کرنے کے لئے ایسی چلا دی گئی جس پوری ٹرین کے اندر دس سے بیس مسافر ہوتے تھے اور پھر بھاری خسارے کی وجہ سے وہ بند کرنی پڑی۔شیخ رشید شکوہ کرتے ہیں کہ افسران ان سے تعاون نہیں کرتے اور تعاون کا مطلب یہ ہے کہ یس سر، یس سر کی گردان نہیں کرتے، وہ شیخ صاحب کی پالیسیوں کے مضمرات ان کے سامنے رکھنے کی جرا¿ت کرتے ہیں تو پھر وہ نکال دئیے جاتے ہیں۔ انہیں یہ عادت خواجہ سعد رفیق نے ڈالی ہے کہ وہ کھل کر اختلاف کرتے ہیں، جی ہاں، میںنے ریلوے میں ریلوے کے افسران کو فیصلے کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کے نتیجے میں حیرت انگیز بہتری آئی۔کیا میں ادب و احترا م کے ساتھ جان سکتا ہوں کہ ان دس گیارہ ، ماہ کے دوران ریلو ے کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے کتنے اجلاس اوراقدامات ہوئے۔ میں اس امر کی گواہی دے سکتا ہوں کہ خواجہ سعد رفیق نے آزادی سے محروم ہونے سمیت تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود ایک سے زائد مرتبہ شیخ رشید احمد کو اپنے مکمل تعاون کی پیش کش کی ، اس پیش کش کا حاصل یہ تھا کہ ریلوے پوری قوم کا ادارہ ہے ، اسے سیاسی اکھاڑہ نہیں بننا چاہئے مگر اب شیخ صاحب کی ریلوے میں ٹرینیں کم چلتی ہیں، زبان اور سیاست زیادہ۔ کیا یہ بتانا غلط ہو گا کہ سابق دور میں ایسے افسران بھی اہم عہدوں پر موجود رہے جو اپنے پی ٹی آئی سے تعلق کا کھلم کھلا اظہار ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ایک ذمے دار عہدے پر افسر نے ایک آفیشل واٹس ایپ گروپ میں اس وقت کے وفاقی وزیر کا مضحکہ خیزکارٹون شئیر کر دیا مگر اس کے باوجود وہ نہ صرف عہدے پر موجود رہا بلکہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کا حصہ بھی بنتا رہا، کامیابی کا یہ راستہ اور یہی گُر ہے ۔ ریلوے سیاست سے ہٹ کر بہت مختلف قسم کی وزارت ہے اور اسے پسندناپسند سے ہٹ کر چلانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ترقی ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن سے جڑی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایم ایل ٹو اور تھری کو بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ریلوے اس رویئے کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اشفاق خٹک اورحنیف گل جیسے پروفیشنل اور دیانتدارافسران سے روا رکھا گیا مگر کیا شیخ رشید احمد اپنی فطرت تبدیل کر سکتے ہیں اور کیا انہیں بتایا جا سکتا ہے کہ ریلوے رضیہ بٹ کا ناول نہیں بلکہ ایک بہت زیادہ پروفیشنل اور ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ ہے ۔ نئی نئی ٹرینیں ، رضیہ بٹ کے ناولوں کے نئے نئے معاشقوں کی طرح توجہ تو کھینچ سکتی ہیں مگر یہ ٹرینیں اتنی ہی غیر حقیقی ہوتی ہیں جتنے ناولوں کے معاشقے، جی ہاں، یہ کامیابی کا راستہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس نے ریلوے انتظامیہ اور مسافروں کی مشکلات میںا ضافہ کیا ہے ۔ حالات یہ ہو گئے ہیں کہ ریلوے غیر ضروری سیاسی بوجھ کی وجہ سے ابھی تک دو ہفتے قبل ہونے والے حادثے کی وجہ سے اپ سیٹ ہونے والا ٹائم ٹیبل بحال نہیں کر سکا کہ ایک نئی مصیبت آن پڑی ہے ۔یہ کامن سینس کی بات ہے کہ آپ پہلے موجودہ نظام کو بہتر بنائیں اور اس کے بعد توسیع میں جائیں مگر یہ راستہ شیخ رشید کی فطرت اور صلاحیت کے مطابق نہیں ہے ۔ کہا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ وہ کسی دوسری وزارت کو ٹرائی کریںاور عین ممکن ہے کہ وہاں وہ بہتر اور مختلف نتائج بھی دے سکیں۔