تحریر :ماجد امجد ثمر
ریڈیو کا عالمی دن ہر سال 13 فروری کو تما م دنیا میں منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا اعلان یونیسکو کی36ویں جنرل اسمبلی نے 3 نومبر 2011 ء کو کیا تھا۔اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی تجویز سپین کی حکومت کی پیش کردہ تھی۔اور یونیسکو کا اس تجویز پر عمل کرنے کا اہم مقصد یہ تھا کہ اس سہولت کو بروئے کار لاتے ہوئے آنے والی نسلوں کے لئے ذیادہ پرامن اور بہترین مستقبل پیدا کیا جاسکے ۔اس دن کو منانے کا ایک اور اہم مقصد یہ بھی ہے کہ تمام براڈکاسٹرز کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو بڑھایا جائے،ذیادہ سے ذیادہ معلومات تک رسائی ممکن ہو اور سب سے بڑھ یہ کہ اظہار ِرائے کی آزادی کو فروغ مل سکے۔
کیونکہ ریڈیو کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے ثقافتی ،سماجی، سیاسی،اور اقتصادی پہلوئوں بارے مدد ملتی ہے اور اس کے علاوہ مقامی ثقافتوں اور مقامی زبانوں کے پروگرام نشر کر کے لوگوں تک معلومات پہنچائی جاتی ہیں اور ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ترقی پذیر ممالک میں حالات ِ حاضرہ سے آگاہی یا معلوماتی سرگرمیوں کے میدان میں ریڈیو ابھی بھی ایک بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔جیسے کہ زراعت کے سلسلے میں زرعی پروگراموں کے زریعے معلومات کسانوں تک براہ راست پہنچائی جاتی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ دیہاتوں میں آج بھی لوگ ریڈیو بڑے شوق سے سنتے ہیں۔
اب جہاں تک پاکستان میں ریڈیو صحافت کی تاریخ اور ریڈیو صحافت کا تعلق ہے ۔تو 1947ء میں علیحدگی کے وقت انڈیا کے تقریباً تمام بڑے شہروںمیں درجن سے ذائد ریڈیو اسٹیشن کام کر رہے تھے لیکن پارٹیشن کے بعد پاکستان کے حصے میںصرف تین ریڈیو اسٹیشن لاہور ،پشاور اور ڈھاکہ آئے تھے۔اور اس کے ساتھ’ سنٹرل نیوز آرگنائزیشن ‘کے تمام مسلم افسران اور وہا ں کے عملے کو بھی یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا انڈیا میں کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔لیکن ان سب نے نئے وطن یعنی پاکستان کا ہی انتخاب کیا۔
اب اس شعبے میں مہارت رکھنے والے لوگ تو موجود تھے لیکن پاکستان کے حصے میں جو ریڈیو اسٹیشن آئے تھے وہاں انتہائی کم پاور ٹرانسمیٹر تھے ان کی ذیادہ رینج نہیں تھی۔ پاکستان کے قیام کا اعلان سب سے پہلے لاہور اور ڈھاکہ کے ہی ریڈیو اسٹیشن پر ایک خصوصی ٹرانسمیشن کے زریعے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب میں کیا گیا ۔اور ہمارے اس قومی زرائع سے پہلا خبری بلیٹن یا پہلا خبرنامہ 14 اگست کو نشر کیا گیا ۔ آج بھی ریڈیو پر خبرنامہ پیش کیا جاتا ہے لیکن ریڈیو پر خبرنامہ کا دورانیہ عام طور پر تھوڑا ہو تا ہے۔
اس پر نشر کی جانے والی خبروں میں صداقت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کیو نکہ غلط خبریں نہ صرف سامعین کی غلط سمت رہنمائی کرتی ہیں بلکہ قوم کے تشخص کو بھی متاثر کرتی ہے ۔اس کے علاوہ ریڈیو کی خبروں میں سادہ ذبان استعمال کی جاتی ہے تا کہ ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا شخص بھی اسے آسانی سے سمجھ سکے اور یہ ریڈیو ایڈیٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان خبروں میں ذاتی احساسات و جذبات کو نظر انداز کر کے یعنی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سننے والوں تک اصل سچ پہنچائے۔ مانا کہ ٹیلی وژن کی اپنی ایک اہمیت یا کشش ہے لیکن آج کے دور میں بھی ریڈیو کی اہمیت سے انکار نہ ممکن ہے۔
کیونکہ ابھی بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں ٹیلی وژن پر نشریات کا حصول آسانی سے ممکن نہیں لیکن وہاں ریڈیو کی کارکردگی بڑی موئثر رہتی ہے۔ویسے بھی جن جگہوں پر بجلی کی سہولت میسر نہ ہو وہاں سیلوں کے زریعے چلنے والے ریڈیو کو استعمال کرتے ہوئے لوگ حالات ِحاضرہ سے جانکاری حاصل کر لیتے ہیں۔جنگوں کے دوران نئی معلومات یا حالات بارے آگاہی حاصل کرنے کے لئے لوگ ریڈیو سے بڑا مستفید ہوتے رہے ہیں۔کیونکہ ریڈیو ہی ایک ایسا واحد موئثر زریعہ ابلاغ ہے جو ذیادہ سے ذیادہ آبادی تک معلومات پہنچا سکتا ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے ہی ریڈیو کو ‘ یونیورسل میڈیم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ریڈیو تفریح کا بھی ایک بڑا زریعہ جانا جاتا ہے۔ا س پر موسیقی کے پروگراموں سے لوگ بڑے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آج کی نسل ریڈیو کے صرف نام سے ہی واقف ہوتی اگر موبائل فون میں ریڈیو کی سہولت موجود نہ ہوتی۔اس پر مختلف تفریحاتی پروگراموں اور خاص طور پر فرمائشی یا اپنی پسند کے گانوں نے موجودہ نسل میں ریڈیو سننے کی عادت یا شوق کو ذندہ رکھا ہو ا ہے۔ ریڈیو پر مختلف پروگراموں میں ایک ‘ٹاپک ‘رکھا جاتا ہے اور پھر کالرز اس بارے اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنی پسند کے گانوں کی فرمائش بھی کر دیتے ہیں جن کو بعد میں بالترتیب چلایا بھی جاتا ہے۔گذشتہ دنوں مجھے بھی ا یک سرکاری ریڈیو اسٹیشن FM-95پر اعظم توقیر صاحب کے پروگرام ‘ ریت پریت’ میں بطورِ مہمان جانے کا اچھا اتفاق ہوا۔ یہ ایک بڑا عمدہ پروگرام تھا جسے سامعین واقعی بہت پسند کرتے ہیں۔
آج کے دور میں آئے روذ نئے سے نئے ٹی وی چینلز دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن ریڈیو صحافت آج بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ خبرنامے یا دیگر معلوماتی یا تفریحاتی پروگراموں کے علاوہ ذیادہ سے ذیادہ تعلیمی پروگرام بھی پیش کیے جانے چاہیے۔کیونکہ ان سے ان بچوں کو بڑی رہنمائی ملے گی جو تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور گھروں میں ہی پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
اس میں کوشیش یہ کی جانی چاہیے کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کو مدنظر رکھا جائے اور نصابی تعلیم بارے لیکچر دیئے جائیں۔جیسے کہ میڑک سائنس کے سٹوڈنٹس کے لئے ایک وقت مختص ہو کہ انہیں فلاں مضمون کے فلاں چیپٹر نمبر بارے آن ایئر پڑھایا جائے گا۔اور یوں ہر ایک ریڈیو اسٹیشن کسی ایک کلاس جیسے میٹرک ،انٹر ،یا گریجویشن کے سٹوڈنٹس کو آن ائیر تعلیم دینے کی ذمہ داری لے لے تو یقینا ایسے تعلیمی پروگرام بچو ں کے لئے بڑے سود مند ثابت ہوں گے اور انہیں بڑ ے بہتر طریقے سے علمی مدد یا رہنمائی مل سکتی ہے۔
تحریر : ماجد امجد ثمر