اسلام آباد(ایس ایم حسنین)حکومت کی کرپشن کیخلاف بھرپور مہم کے دوران نیب اورپبلک اکائونٹس کمیٹی کے متحرک کردار کے باوجود پاکستان عالمی کرپشن انڈیکس میں چار درجے نیچے آگیا۔انڈیکس کے مطابق دنیا میں سب سے کم کرپشن نیوزی لینڈ اور ڈنمارک میں ریکارڈ کی گئی اور دونوں ممالک ریننکنگ میں نمبر ایک پر ہیں جبکہ سب سے زیادہ کرپشن جنوبی سوڈان اور صومالیہ میں ریکارڈ کی گئی جن کا رینک 179 ہے۔ایشیا کے دیگر ممالک میں بھارت، ایران اور نیپال کا اسکور ایک درجے جبکہ ملائیشیا کا 2 درجے کم ہوا البتہ افغانستان کا اسکور 3 درجے اور ترکی کا ایک درجہ بہتر ہوا۔فہرست میں اچھی کارکردگی دکھانے والے ممالک صحت عامہ میں زیادہ سرمایہ کاری کررہے اور عالمگیر صحت کی سہولیات دینے کے بہت اہل ہونے کے ساتھ وہاں جمہوری اصولوں اور اداروں یا قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کا امکان کم ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 180ملکوں اور خطوں کے سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن کا جائزہ لیا گیا جس میں سب سے زیادہ کرپٹ کو صفر اور شفاف ترین ملک کے لیے 100کا ہندسہ رکھا گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن پرسیپشن انڈیکس برائے سال 2020 میں پاکستان 180 ممالک میں سے 124ویں درجے پر آگیا جبکہ گزشتہ برس پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 120ویں نمبر پر تھا۔ اس کے ساتھ ملک کا اسکور بھی 100 میں سے گزشتہ برس کے 32 کے مقابلے کم ہو کر 31 ہوگیا، سال 2019 میں پاکستان کا درجہ 180 ممالک کی فہرست میں 120 تھا۔ بھارت کے اسکور میں بھی ایک پوائنٹ کی کمی ہو ئی اور یہ 41 سے کم ہو کر 40 ہوگیا جبکہ بھارت کے اس فہرست میں80ویں درجے سے گر کر 86 نمبر پر پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے 2 ذرائع رول آف لا انڈیکس اور ورائٹی آف ڈیموکریسی سے متعلق شعبے میں بھی کم اسکور کیا جس کی وجہ پاکستان کے مجموعی اسکور میں سی پی آئی 2020 کے مقابلے ایک درجے کی کمی ہوئی۔ عالمی انصاف پروگرام (ڈبلیو جے پی) رول آف لا اینڈ ورائیٹیز آف ڈیموکریسی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات سرکاری افسران، قانون سازوں، ایگزیکٹوز، عدلیہ، پولیس اور فوج کی کرپشن کے بارے میں تھے جس کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمینسہیل مظفر نے وضاحت کی۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت نے ان چاروں شعبوں میں اپنی کارکردگی بہتر بنائی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیب کی جانب سے گزشتہ 2 برسوں کے دوران 3 کرب 63 ارب روپے برآمد کرنے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے 3 کھرب روپے کی برآمدگی کے دعووں اور غیر معمولی کوششوں کے باوجود رینکنگ اور اسکور کم ہوا۔خطے کے دیگر ممالک میں بھارت، ایران اور نیپال کا اسکور ایک درجے جبکہ ملائیشیا کا 2 درجے کم ہوا البتہ افغانستان کا اسکور 3 درجے اور ترکی کا ایک درجہ بہتر ہوا۔ سی پی آئی 2020 میں انکشاف ہوا کہ مسلسل کرپشن صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو نقصان پہنچارہی ہے اور جمہوریت کی گراوٹ میں کردار ادا کررہی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم اور اس کے حواری ٹرانپرنسی انٹرنیشنل کی2019 کی رپورٹ کے پیچھے اپنے گندے گناہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنی ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’قوم کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ یہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی کرپشن کا گند ہے کیوں کہ رپورٹ کے لیے جو ڈیٹا استعمال ہوا وہ 2017 ،2018 اور 2019 میں پبلش ہوا اور اس سے بھی پہلے جمع کیا گیا۔‘
’انہوں نے لکھا کہ ’کیونکہ رپورٹ انگلش میں ہے،اردو ترجمہ کرنے میں چند گھنٹے لگیں گے، سو پٹواری بھائی آج خوب لڈیاں ڈالیں گے۔ لیکن کل جب سمجھ آئے گی کہ اصل میں یہ رپورٹ ہمارے زمانے کے ڈیٹا پر مرتب ہوئی ہے اور ہماری کرتوتوں کا بتا رہے ہیں تو ماحول سوگوار ہو گا۔ہوسکتا ہے پھر اس رپورٹ پر عدم اعتماد ہو جائے۔‘
تاہم اردو نیوز کے پاس ٹرانسپیرنسی کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق جن دو ایریاز کی وجہ سے پاکستان کی کرپشن رینکنگ میں ابتری آئی ہے ان کے لیے 2019 کے ڈیٹا سیٹ استعمال کیے گئے ہیں۔
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی پاکستان برانچ کے سربراہ سہیل مظفر کے مطابق اس سال پاکستان کا سکور بھی کم ہو کر31 ہو گیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 32 تھا۔
یاد رہے کہ انڈیکس میں نمبر زیادہ ہونے کا مطلب زیادہ کرپشن ہے جبکہ سکور زیادہ ہونے کا مطلب زیادہ شفافیت ہے۔
سہیل مظفر نے پاکستان کے اعدادوشمار میں تنزلی کے حوالے سے کہا کہ ’ ایسا نیب کی غیر معمولی کاوشوں اور اس دعوے کے باوجود ہوا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں 363 ارب روپے ریکور کیے گئے ہیں اور اسی طرح پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا بھی دعوی تھا کہ گزشتہ دو سالوں میں 300 ارب روپے ریکور کیے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ سال کے مقابلے میں دو جگہوں پر ابتری دکھائی ہے جن میں ایک قانون کی بالادستی اور دوسرا جمہوری تنوع ہے۔
سہیل مظفر کے بقول ’ان دو ایریاز میں جن حوالوں سے تحقیق کے بعد ابتری سامنے آئی ہے وہ حکومتی اہلکاروں میں کرپشن کے حوالے سے تھے جن میں پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ۔ پولیس اور فوجی اہلکار شامل ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ان ایریاز میں بہتری کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے پڑوسی ممالک میں افغانستان کا کرپشن سکور تین درجے بہتر ہوا ہے گو کہ انڈیکس میں اس کا نمبر ابھی بھی 165 ہے۔
اسی طرح انڈیا، ایران اور نیپال میں بھی کرپشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور تینوں ممالک کا کرپشن سکور ایک ایک درجے کم ہوا ہے۔ انڈیا کا کرپشن سکور 40 ہے اور سی پی آئی انڈیکس میں ریننکنگ 86 ہے۔اس سال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دنوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرپشن کے باعث دنیا بھر میں صحت کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی گزشتہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرپشن کی وجہ سے دنیا میں ہیلتھ سیکٹر کو 500 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس سال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دنوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرپشن کے باعث دنیا بھر میں صحت کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی گزشتہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرپشن کی وجہ سے دنیا میں ہیلتھ سیکٹر کو 500 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔