تحریر:بدر سرحدی
اور اب پانچ دن بعد ملک میں پٹرول کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر آعظم میاں نواز شریف نے وزارت پٹرولیم کے چار سینئر افسران کو معطل کرنے کے احکامات جاری کئے ،مگر کیا معطلی بھی کوئی سزا ہے ؟،ضروری ہے کے اس مصنوعی قلت کی اصل کہانی عوام کے سامنے لائی جائے اور زمہ داروں کو محض معطل نہیں بلکہ کڑی سزا دی جائے …..اور اگر زمہ دار خود وزیر عظم اور اِس کا تھنک ٹنک ہوأ تو پھر …کہ انہوں نے ملک میں تیل کی ترسیل کے لئے گڈز ٹرانسپورٹ کے علاوہ کوئی دوسر ا انتظام نہیں رکھا تمام تر توجہ سڑکوں یا موٹر ویز پر مرکوز رکھی ہے …جتنا سرمایہ موٹرویز پر صرف کیا جا رہا ہے اس سے تو ریلوے کو فعال کیا جاسکتا تھا اور آج ملک میں ایک اوربحران تیل کی قلت کی صورت میں عوام کو پریشاں نہ کرتا مگر …نہ معطل کئے گئے
سیکٹریز یا وزیر پٹرولیم خاقان عباسی اور نہ ہی اور کوئی اس مصنوعی قلت کے زمہدار ہیں بلکہ اس کی تمام تر زمہ داری وزیر آعظم اس کی کابینہ اور وزیر ریلوے پر عائد ہوتی ہے ،آج بھی میاں صاحب ریلوے کی افادیت کو محسوس کریں اور اور فوری تمام تر توجہ ریلوے سروس کی بحال کودیں، تاکہ آئل ٹینکر اور ٹرانسپورٹ کی اجاراداری ختم ہوں ملک ہر وقت حالت جنگ میں ہے اِس لئے ایسے حالات میں ریلوے کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،اس لئے کلی طور پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر انحصار کسی بھی وقت بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے….ملک کے اعلیٰ دماغ تھنک ٹنک اس نقطہ پر غور کریں،اور کسی پس وپیش کے ریلوے کو بحال کریں،تو پھر عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات ہو سکتے ہیں
گزرے چار پانچ دنوں سے ملک میں پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی جس سے ملک میں ہا ہا کار مچی ہے ،جسکی کھل کر واضح کسی نے زمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی کسی کو زمہ دار قرا دیا گیا ضروری ہے کہ اس مصوعی قلت کے لئے کسی زمہ دار قرار دیا جائے تو پھر اس کا حل بھی نکل سکتا ہے….! یہ تو پہلے ہی کہا جا رہا کے پٹرولیم مصنوعات میں واضح کمی کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں مل رہی ریلیف تو کیا ملتی اُلٹا پٹرول ہی شارٹ کر دیا ،لاہور میںایل ٹی سی کے نام اور رنگ سے پندرہ کمپنیوں کے علاوہ یہ ٹیوٹا ویگنیں اور مزدہ بسیں بھی چل رہی ہیں مگر یہاں لوکل میں کوئی کرائے میں کوئی کمی نہیں ہوئی جب صوبائی دارالحکومت میں عوام کو لوٹا جارہا ہے
تو پھر بین الاضلاحی روٹوں پر چلنے والی ٹرانسورٹ کو بھلا کون پوچھ سکتا ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ اور سیکٹریز ٹرانسپورٹ وغیرہ سب ہی سفید ہاتھی ہیں ،جب تک سرکاری ٹرانسپورٹ روڈ ترانسپورٹ کارپوریشن زندہ رہی تو اُس کا ترتیب دیا ہوأ کرایہ پورے ملک میں رائج ہوتا ،کہ وہ ایک اصول اورضابطہ کے تحت کرایہ نامہ بناتی مگر ١٩٩٧ میں اسی نون حکومت نے ،٥٢ برس تک عوام کی خدت کرنے والے قومی ادارے کو تالا لگا کر عوام کو پرائیویٹ ٹرانسپُورٹ کے حوالے کر دیا سامراجی حکمرانوں نے ملک چھوڑنے سے پہلے ٹرانسپورٹ اور ریل کا بہترین انتظام دے کر گئے مگر … ،اور اب کرایہ بنانا یہ زمہ داری محکمہ ٹرانسپورٹ کی ہے
جس کے زمہ دار سیکٹری ترانسپورٹ ہیں مگر انہیں کون پوچھے ،ٹرانسپورٹر طاقتور ہے کہ اُس کے مقابل اور کوئی نہیں …….. ،اور حکومت صرف بیان بازی ہی کر سکتی ہے کہ اب عوام کی سفری ضرورت پر صرف پرائیویٹ ٹرانسپورٹر کی اجارہ داری ہے ،دوسری طرف زرائع آمد و رفت کے عظیم ادارے ریل کے مال برداری کے شعبہ کو نکرے لگا دیا ہے بھارت نے ریلوے کو ترقی دی جبکہ ہم نے اسے مکمل طور پر بند کرنے کی طرف اپنا سفرجا ری رکھاہے ہیںمگر کیوں…..؟؟ اب آئیں دیکھے کہ اچانک کیا اور کیوں یہ پٹرول کی قلت پیدا ہوئی ،یہ اچانک نہیں بلکہ ٹرانسپورٹر کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے ،کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں خاصی کمی ہوئی ہے اور حکومت بار بار عوام کو ریلیف دینے کے اخباری بیان جاری کر رہی لیکن ٹرانسپورٹر نے جو کرائے از خود مقرر کئے ہیں ،
دوسرے لفظوں میں تاجر خواہ چھوٹا ہے یا بڑا وہ جو کچھ حاصل کر چکا یا حاصل کر رہا ہے اُس سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا ، کرائے میں اب تک جو وہ حاصل کر رہے ہیں ہر گز کمی کرنے کے لئے تیار نہیں اِس ضمن میں حکومت اب ناکام ہو چکی ہے، تیل کی نقل و حمل کے لئے ٹینکر مالکان نے اعلان کیا کے ہم کرائے کم نہیں کریں گے
اُنہیں علم ہے ،کہ حکومت کے پاس تیل کی ترسیل کا اور کوئی متبادل زریعہ نہیں،لہذادو ایک دن میں کرائے میں کمی کے اعلانات و بیانات وقت کی دھول میں دب جائیں گے ،اورپھر ٹینکر مالکان سے سودے بازی ہو گی اور تیل کی ترسیل جاری ہو جائے گی ،تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملی اور نہ ہی ملے گی، ریلیف اگر ملے گی تو وہ تاجر ،اور جاگیر دار کو ہے عوام کے حصہ میں صرف اخباری بیان کے ہم نے تیل کی قیمتیںکم کی اور عوام کو ریلیف دی ،اب اگر اسمبلی میں عوام کا کوئی نمائندہ ہو تو وہ تو پوچھے جناب کیسی ریلیف اور کس کو…..؟ مگر پارلیمنٹ تو عوام کے نمائندے سے بانجھ ہے وہاں تو جاگیر دار ،صنعتکا ر،اور تاجروں کے نمائندے ہیں اور انہیں کے مفادات کی نگرانی ہوتی ہے نہ کوئی عوامی نمائندہ ہے اور نہ ہی عوامی مسائل زیر بحث آتے ہیں
سوائے اخباری بیانات کے،اب رہا سوال قیمتوں میں کمی کا یا ریلیف کا تو عوام جان لے پاکستا ن میں کبھی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں دنیا کی کوئی طاقت بھی یہاں بڑی ہوئی قیمتوں میں کمی نہیں لا سکے گی ،کیوں ؟اس کیو ں ْپر آئندہ بات کروںگا،ابھی یہی ہے کے یہی اس عوام کا مقدر ہے کے تاجر وں اور جاگیرداروں کا ٹولہ اِن پر حکومت کرے اور ڈائن کی طرح اِن کا خون چوسے ،ان سے کسی خیر کی توقع عبث ہے سوائے اس کے کہ ا خباری بیانات سے عوام کو ریلیف کی نوید دیتے رہیں گے اور بس…
تحریر:بدر سرحدی