عزت بھی کسی چیز کا نام ہے انسان بے غیرت ہو جا ئے تو اس کا کو ئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہما ری ملکی سیاست اور حکمران جما عتوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، ہمیں اچھی طرح یا د ہے کسی بھی وزارت کے وزیر پر بد عنو انی اور کر پشن کا الز ام لگ جا تا چائے وہ حقیقیت نہ سہی لیکن وہ اپنے الزام کی بنا پر اس وزارت سے مستعفی ہو جاتا تحقیقات ہونا بعد کی بعد ہے اب بھی پا کستان کے علا وہ کو ئی دوسرا ملک سرلنکا ،نیپا ل،او دوسرے بہت سے ملک ہیں جن میں جعہوریت پھل پھو ل رہی ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے یہا ں تو جمہوریت کا نا م لوٹ مار کر پشن اقر با پر وری ہے
وفاقی وزاراء اور صو بائی حکو متیں اپنے عہدے کا نا جا ئز فائد ہ اٹھا تے ہیں ملا زمتوں میں بھر تی ،کنسٹریکشن و دیگر تعمیراتی کا موں خوب سفارش اور مٹھی گرم کا نظام بھی چلتا ہے عوام پر آئے روز ٹیکس اور اشیاء نو ش کو مہنگی کر نا معمو ل بن گیا بلکہ سالا نہ بجٹ کی بجا ئے ہفتے بعد بجٹ پیش ہو جا تا ہے وزراء اتنے ڈیٹھ ہیں کہ ان کے کا نوں پر جون تک نہیں رینگتی پہلے ادوار میں تیل کی قیمت بڑھتی تھی تو اشیائے خوردونوش اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں بھی اسی نسبت سے بڑھا دی جاتی تھیں مگر اب تیل کی قیمت کم ہوئی مگر غریب عوام اور محنت کش مزدوروں ، کسانوں کو قطعاً ریلیف نہیں ملا ۔ حتیٰ کہ ٹرانسپورٹ کے بھی من مانے کرائے وصول کئے جارہے ہیں
تیل حکومت کو عالمی منڈیوں سے٧ ٣روپے فی لٹر مل رہا ہے مگر ہم اسے ٧٢روپے بیچ رہے ہیں اور عوام کو تیل کو وزیر اعظم اور ان کی ٹیم قیمت کم کرنے کی خو شخبری سنا رہے ہیں ٣٧اور ٧٢درمیان والی رقم ٣٥روپے فی لٹر منافع مسلسل حکمرانوں، ان کے کرپٹ وزراء ، ٹوڈی بیوروکریٹوں اور تیل کمپنیوں کی جیب میں جارہا ہے ۔اس طرح سے ان تینوں ڈاکو گروہوں کی چاند ی ہوگئی ہے ۔ تما م بنیادی ضروریات زندگی کی اشیائ، سبزی ، گھی ، گوشت ، چاول ، پھل کی قیمتوں میں مہنگائی کے جن نے تباہی مچارکھی ہے اور اس طوفان بدتمیزی کو روکنے والا کوئی نہ ہے۔
نچلے طبقے کی چیخیں اور آہیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی ۔ دوسری طرف کھیت مزدوروں اور غریب کسانوں سے ان کی فصلیں کپاس، چاول، گنا ، گندم اونے پونے داموں خرید لی جاتی ہیں اور درمیان میں حکومتی کرپٹ ٹولہ دوبارہ ان تک پہنچنے والی قیمتیں کئی گنا کرڈالتا ہے ۔اس طرح سے حکومتی کرپٹ ذمہ داروں ، سود خور سرمایہ داروں اور بے ایمان تھوک فروش تاجروں کی شیطانی مثلث اربوں ، کھربوں کماتی ہے اور بیرون ملک ان کا سرمایہ مسلسل منتقل ہورہا ہے۔
حکمران اور ان کے حواری امیر ترا ور عوام غریب ترہوتے جارہے ہیں ۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی ملیں اس طرح ناجائز بچے پیدا کررہی ہیں کہ ان کی گنتی بھی مشکل ہے۔مزدوروں کی تنخواہیں باربار کے اعلانات کے باوجود کم ترین سطح پر ہیں اور مہنگائی کا جن دیو بن کر اس شیطانی مثلث کے ذریعے عوام کا خون چوس رہا ہے۔ سرمایہ کایہ خوفناک تفاوت نچلے طبقوں میں سخت ہیجان بپا کئے ہوئے ہے جو کسی بھی وقت خونی انقلاب پر منتج ہوسکتا ہے ، تو پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری اور شریفوں کے جاتی امرائی اور عمرانی بنی گالائی محلات اور زرداری کے بلاول ہاؤسز زمین بوس ہوجائیں گے۔
پشاور کے سکول پر دہشت گردانہ حملے جس کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد بچے شہید ہوئے اور شکار پور خود کش حملہ جس میں 80سے زائد جانیں چلی گئیں، سکولوں کو مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں ،ریلوے ٹریکوں پر بم حملے ہورہے ہیں ،دوبارہ پشاور حیات آباد میں امام بارگاہ مسجد پر حملے میں دو درجن کے قریبافراد لقمہ اجل بن چکے ہیں انسانی خون کبھی اتنا ارزا ں نہ تھا ،انڈیا ہمارا پانی ڈیموں کے ذریعے روکے ہوئے ہے اور یہاں انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں سانحہ بلدیہ ٹائون کے ملزمان واضع ہو چکے۔ ان واقعات پرتینوں حکمران ٹولوں مرکز اور پنجاب کی ن لیگ، سرحد کی پی ٹی آئی اور سندھ میں زرداری کی پی پی پی کو اخلاقاً مستعفی ہوجانا چاہئے تھا مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے حکمران رہ کر خود کو ضدی اور کھسیانی بلی ثابت کرڈالا ہے جو کہ کھمبا نوچے اور کچھ نہ کرسکنے کے مصداق ہے۔
اب جتنی بھی امن عامہ کیلئے حکومت ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے وہ سراب بنتی جارہی ہیں۔ بوری بند لاشوں کے سوداگر اورلسانی بھتہ مافیا، کٹھ ملائیت کے علمبردار پرانے گھسے پٹے سیاسی اقتداری چہرے لوگوں کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں ۔ان کی ٹیموں میں ہی کم از کم تبدیلی کردی جاتی تو بھی عوام کسی نئے اقدامات پر مطمئن ہوسکتے تھے۔ اب تعلیم حاصل کرنے کیلئے جانے والے بچوںاور ان کے والدین ان نااہل حکمرانوں کی موجودہ ٹیموں سے نالاں ہوتے ہوئے سخت سراسیمگی کے عالم میں بچوں کو سکول بھجوانے سے کترا رہے ہیں اور ”گھر سکول” کھل رہے ہیں کہ استاد گھر ہی آکر ٹیوشن پڑھا جائیں یا ماں باپ اور بہن بھائیوں سے تعلیم حاصل کرتے رہیں۔
فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف حکومتی مہم مذاق بن کر رہ گئی ہے چھوٹے ریڑھی والوں کے سپیکر خوامخواہ پولیس چھین کر ان کے معمولی کاروباروں کو تباہ کر رہی ہے آلو چپس اور چنے ،چاول بیچنے والے غریب مزدوروں سے بھی حکمرانوں کو دہشت گردی کی بو آرہی ہے عالمی سامراج کے ایجنڈے کے مطابق ہر داڑھی والے کو حتیٰ کہ مساجد کے آئمہ کرام بھی دہشت گردی میں پکڑے جارہے ہیں جبکہ فوجی عدالتوں پرہرطرف سے سوالیہ نشان لگ چکا ہے بار ایسوسی ایشنز سپریم کورٹ میں چیلنج کر چکیں ۔ موجودہ فیصلے کرنے والے ججوں اور گواہوں کو قطعاً تحفظ حاصل نہ ہے ہائی کورٹوں میں چالیس نئے جج تعینات کرکے دن رات کی بنیاد پر دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے
اس طرح امن عامہ کی حالت سخت دگرگوں ہوگئی ہے جبکہ روزمرہ کی اشیائے صرف مہنگی بیچ کر حکومتی وزراء اور ان کے حواری مال پانی بنانے اور اپنے بیرونی ملکوں میں بینک بھرنے اوراپنی ذاتی مزید صنعتیں لگوانے پر توجہ دیئے ہوئے ہیں چنیوٹ میں تانبا ،سونا کے انبار تو مل گئے مگر جب تک باکردار قیادت بر سر اقتدار نہیں آتی پاکستانیوں کے دل کو دھڑکا سا لگا ہوا ہے کہ کہیں یہ سبھی مال ومتا ع خورد برد ہوکر حکمرانوں کی مزید ملیں نہ لگ جائیں۔
ان حالات میں فوری بلدیاتی انتخابات اور اس کے بعد نئے ملک گیر عام انتخابات کروائے بغیر کوئی چارہ نہ ہے اگر ایسا نہ ہوسکا تو بپھرے ہوئے غریب ، مظلوم عوام کوئی بھی انہونا خطرناک راستہ اختیار کرسکتے ہیں جو کہ ملک و قوم کے مفا د میں نہ ہوگاآئندہ کسی بھی انتخابات میں اللہ اکبر تحریک کے انتخابی نشان گائے پر عوام مہریں لگا کر موجودہ اور سابقہ مقتدر ساری سیاسی پارٹیوں اور لسانی گرو ہوں کا دلی کے الیکشن میں انڈیا کی کانگرس اور بی جے پی کی طرح تیا پانچا کرڈالیں گے اورعام آدمی پارٹی کی طرح مسلمانوں کی سیاسی جماعت اللہ اکبر تحریک ہی پاکستان میں کامیاب ہوگی اور انشاء اللہ ملک اسلامی فلاحی مملکت بن جائے گا۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر امتیاز علی اعوان