کامیاب ازدواجی زندگی کا ایک اُصول یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ مہمانوں جیسا رویہ رکھے ۔
زدواجی تعلق کی سب سے مضبوط بنیاد جذبہ محبت ہے۔ محبت پیدا ہو تی ہے اچھے اخلاق سے ۔۔ خواہ میاں بیوی کے بیچ ہوں یا باپ ، بیٹے کے درمیاں یا کسی اور رشتے وغیرہ کے درمیاں۔
یہ جذبہ موجود ہو تو میاں بیوی دنیا میں جنت کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مقصد اعلی یعنی تربیت اولاد پر اچھے …اثرات بھی مر تب کرتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان من اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ ) (ترمذی ، کتاب الایمان باب ۶)
”کامل ایمان والاوہ شخص ہے جو اخلاق میں اچھاہو اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جواپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہوں “
اخلاق بہت مشکل چیز ہے اور خاص کر بیوی بچوں کے ساتھ ۔۔ کیونکہ ماتحت کے ساتھ رویہ ہمیشہ بُرا ہوتا ہے ۔ ۔۔ غصہ اور مار پیٹ کا رویہ ہی ہوتا ہے ۔ ۔ 85 فی صد تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔
ازدواجی ناچاقیوں کا اصل سبب بد اخلاقی ، بُرا رویہ ہی ہوتا ہے ۔
(لوگو! جان لوکہ )تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہو (اور جان لوکہ )تم میں سے سب سے بہتر اپنے گھر والوں سے حسن سلوک کرنے والامیں خود ہوں“
ایک روایت میں اسی بات کو ایک منفی اسلوب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا:
(لقد طاف اللیلة بال محمد سبعون امرء ة کل امرء ة تشتکی زوجھا فلا تجدون اولئک خیارکم ) (سنن ابی داوٴد)
”آج محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس ستر عورتوں نے چکر لگایاہے ۔ ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کررہی تھی ۔ (میں تم سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ )جن لوگوں کی شکایت آئی ہے وہ تم میں سے اچھے لوگ نہیں ہیں “
یعنی جن شوہروں نے اپنی بیویوں سے ایسا سلوک روارکھا ہوا ہے جس پر وہ شاکی ہیں اور جس سے ان کا قلبی اطمینان جا تا رہا ہے تو وہ لوگ اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں ۔ اس اصول کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی تربیت کے لیے ۔
یہ بات ماننی پڑے گی کہ آج ہمارے معاشرے میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا پلڑا بہت ہلکاہوگیا ہے شوہر اپنی حاکمیت کے مظاہرے کے لیے تو ہر وقت آمادہ نظر آتے ہیں لیکن حسن سلوک کے معاملے میں تہی دست ہیں ۔ یہ معاملہ صحیح نہیں ہے، اصلاح طلب ہے اور یہ اصلاح خاندان کے ادارے کو مضبوط اور خوشگوار بنانے کا باعث بنے گی
شوہر کے لیے لازم ہے کہ بیوی کے ساتھ خوش خلقی کا برتاوٴ کرے ۔ خوش خلقی سے یہ مراد نہیں کہ اسے تکلیف نہ پہنچائے بلکہ یہ ہے کہ اس کا رنج برداشت کرے۔ اس کی سخت کلامی اور ناشکر گزاری پر صبر سے کام لے۔ حدیث میں ہے کہ عورت کی تخلیق ضعف اور پوشیدگی سے ہوئی ہے۔ اس کے ضعف کا علاج خاموشی ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو اپنی بیوی کی بد خوئی پر صبر و تحمل سے کام لے گا اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ملا تھا جب انہوں نے اپنی مصیبتوں ، آفات اور بلاوٴں کو انتہائی صبر سے برداشت کیا تھا
آ خری الفاظ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بوقت رحلت سنے گئے وہ یہ تھے۔ (آہستہ آہستہ فرمارہے تھے)تین چیزوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا !
(۱)…نماز پر مستقل طور پر قائم رہو۔
(۲)…غلاموں (اورلونڈیوں )کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرو اور
(۳)…خداکی قسم عورتوں کے معاملہ میں محتاط رہو کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں اسیر ہیں۔ ان کے ساتھ اچھے طریق سے گزر بسر کرو۔
عورت میں ایک چیز ایسی موجود ہوتی ہے جسے ضعف کے سوا اور کسی چیز سے منسوب نہیں کرسکتے ۔ اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے صبر، برداشت اور بردباری ہی موزوں رہتی ہے
محبت پیار کے اظہار میں کیے گئے چھوٹے چھوٹے فعل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر کثیر کا باعث بنتے ہیں ۔ اگر شوہر محبت سے روٹی کا ایک لقمہ اپنے ہاتھ سے بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے تو اس کا شمار بھی عبادت میں ہوگا۔ محبت کا یہ فعل اور ایسے ہی دوسرے فعل اللہ کے ہاں شرف قبولیت پاتے ہیں
دونوں میاں بیوی محبت کے اپنے اس رویئے کی بدولت ثواب کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور ان کے رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔
بیوی کو پانی کا گلاس اپنے محبت بھرے ہاتھوں سے پلانا بھی شوہر کے لیے موجب ثواب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جب ایک شوہر اپنی بیوی پر پیار بھری نظر ڈالتا ہے اور بیوی بھی اس کی نظر کا ویسا ہی جواب دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی بارش برساتا ہے ۔ شوہر اگر وفور محبت سے بیوی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر دباتا ہے تو ان کے گناہ ہاتھوں کی انگلیوں کے رخنوں سے گر کر جھڑجاتے ہیں ۔ میاں بیو ی کا باہمی اختلاط ان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب ایک شوہر مسکراتا ہو اگھر میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اس خوشگوار رویہ کے نتیجہ میں ایک فرشتہ پید ا کرتا ہے جو اس شخص کی طرف سے قیامت کے دن تک متواتر استغفار کرتا رہتا ہے“
سچی محبت کا بندھن جو شوہر اور بیوی میں ہونا ایک قدرتی امرہے خاوند کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی وقت بھی بیوی پر غصہ سے چیخے چلائے ۔ یہ شوہر کی بزرگی اور رتبہ کے منافی ہے کہ وہ ایسا رویہ اپنائے ۔ اسے تو چاہیے کہ اپنے خوشگوار رویے سے گھر میں چاروں طرف خوشیاں بکھیر دے کہ اسے دیکھتے ہی بیوی بچوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھیں ۔ خوشگوار محبت بھرا ماحول اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دعوت دیتا ہے۔
شوہر پر فرض ہے کہ خاندان میں محبت پیار قائم رکھے ۔ وہ محبت کے بندھن میں شگاف نہ پڑنے دے ۔ بیوی کی حماقتوں اور معمولی لغزشوں پر غم و غصہ کا اظہا ر نہ کرے کہ محبت کے دریا میں تلاطم آجائے ۔ اس کا دل اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر پکڑنہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑے رتبے سے نوازا ہے۔ عورت سے زیادہ عقل و شعور دیا ہے تحمل و بردباری اس میں زیادہ ہے اور دماغی صلاحیتوں میں وہ بیوی سے بڑھ کرہے۔ کیونکہ عورت ناقص العقل پید ا کی گئی ہے۔
نکاح کے بعد شوہر کوجو محبت نصیب ہوتی ہے اسے پروان چڑھانے کی دلی خواہش کرے ۔ میاں بیوی کے درمیان یہ متبرک محبت آپس کے اختلافات ختم کرنے کے لیے کافی ہے لیکن یہ صرف نیک اور پرہیزگار شوہر کے لیے ہے جو سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم )کا علم رکھتا ہے اور اس پر عمل پیرابھی ہوتا ہے ۔ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے اور نکاح کے نتیجہ میں جو پاکیزہ محبت وجود میں آتی ہے اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اپنی محبت کو دوام بخشنے کے لیے جس کا ذکر اوپر آیا ہے نیک شوہر آپس کے متضاد خیالات اور سوچ کے اختلافات کو ہوا نہیں دیتا ۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھڑک نہیں اٹھتا اور بیوی کی ناعاقبت اندیشانہ گستاخیوں کو لگا تار معاف کرتا رہتا ہے اور بیوی کے بلاجواز شور و غوغا سے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہو جاتا ۔ وہ صبر سے بیوی کی کوتاہیوں کوبرداشت کرکے روحانیت کے بلند درجات پالے گا اور اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔
ایک نیک اور پارسا شوہر اپنے اچھے اخلاق اور کردار کی بدولت جو محبت اپنی بیوی کو دے سکتا ہے وہ دولت کی فراوانی ، جسمانی عیش و آرام اور دنیوی جاہ حشمت سے ممکن نہیں ہے ۔ ایسی محبت بیوی کے کم ازکم قانونی ، اخلاقی اور شرعی حقوق پورے کرنے سے حاصل نہیں ہوگی ۔ اس کے لیے خاوند کو اپنے فرائض سے کچھ زیادہ کرنا ہو گا ۔ اور مزید قربانیاں دینا ہونگی ۔ بڑی قربانی تو یہی ہے کہ جب بیوی بد سلوکی کرے تو اس وقت اپنے غصے کو ٹھنڈا رکھے ۔ کسی بات پر ناراض ہوتی ہے تو صبر سے برداشت کرے ۔ اولیائے کرام نے کہا ہے کہ خاوند جب بیوی کے نارواسلوک کا تحمل سے سامنا کرتا ہے تو وہ غازی یا مجاہد کا رتبہ پاتا ہے جو میدان جنگ سے فاتح بن کر آیا ہو۔ درج ذیل احادیث بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
(المجاھد من جاھد نفسہ ) (ترمذی ، فضائل الجہاد باب ۲)
”سچامجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتا ہے“
(لیس الشد ید بالصرعة انماالشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب ) (بہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحیح بخاری الاداب )
”طاقتور وہ نہیں جو دو بدو لڑائی میں دوسرے کو زیر کرلیتا ہے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کی تاکید کی ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عورتوں کے ساتھ اچھابرتاوٴ اور ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ۔
خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی ،بہترین برتاوٴ ، اچھی معاشرت کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا : تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاوٴ کرنے والا ہو(ترمذی :کتاب المناقب : باب فضل ازواج النبی ، حدیث : ۳۸۹۵ )
اور ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حضرت ابوہریر
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتاہو ں(مسلم : کتاب الرضاع ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث : ۱۴۶۸)
اور ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بہترین برتاوٴ کو کمالِ ایمان کی شرط قرار دیا ہے ،
حضرتِ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاوٴ (سب کے ساتھ )(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو۔ (المستدرک: کتاب الایمان: حدیث: ۱۷۳)
بہت سے احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا رویہ ازواج مطہرات کے ساتھ دوستانہ ہوتا ۔
آپ ﷺ نے کبھی بھی اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا اور عورت کو مارنے سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔
آپ ﷺ گھر کے کاموں میں ازدواج مطہرات کے ساتھ مدد فرماتے اُن کے ہاتھ بٹاتے ۔
ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت کو اس لیے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت ناگوارِ خاطر ہے ؛ اس لیے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی دوسری عادت پسند آجائے(مسلم: باب الوصیة بالنساء، حدیث: ۱۴۶۹) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے ساتھ رحم وکرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا؛ اس کوقعر مذلت سے نکال عزت ووقار کا تاج پہنایا۔اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا،