تحریر: شہزاد حسین بھٹی
زیر نظر کتاب ” درخت آدمی”منشا یاد کا چھٹا مجموعہ ہے ۔اس کتاب کے تمام افسانوں میں دو طرح کے عناصر موجود ہیں واقعاتی اور تخیلاتی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی افسانہ پڑھ کر ہم دم بخود ر ہ جائیں یا ذہن کاسارا خون ایک نقطے پر سمٹ آئے جیسے “پنج کلیاں “میں ایک بھینس کو موضوع بنا کر انسانی نفسیات کے ایک عمیق پہلو کو بیان کیا گیا ہے۔کہ انسان ہر اس چیز یا ہر اس انسان کو جھٹلاتا ہے جس سے اس کو کسی قسم کا خوف ہو ۔انسان اپنے اندر کے خوف کو اپنے غصے اور جھنجھلاہٹ میں چھپاتا ہے۔تشبیہات کا بہترین استعمال اس افسانے کو ایک نئے رنگ سے نوازتا ہے۔
اندر کی گنگناہٹ ”لڑکپن کے تجربات کا بچپن کے دور پر ردعمل ہے۔”پولی تھین ”بھوک کے موضوع پر لکھا گیا ایک اُچھوتا افسانہ ہے جو محرومی کے دُور س اثرات کو پیش کر تا ہے اور اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی نسل میں بھوک ہمیشہ سے موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے کبھی عملی اقدامات نہیں کیے گئے ۔اس کو مٹانے کے لیے صرف کانفرنسیں منعقد کرائی جاتی ہیں۔طبقاتی تفریق نے انسانی نسل کو کئی حصوں میں بانٹ دیا ہے ۔
”تیر اور گھاٹ ”غیر محفوظ اور ناکافی رہائش میں خاندانی زندگی بسر کرنے کی مشکلات دکھاتا ہے اور اس میں جو معاشرتی بحث تمہید کے طور پر جو مقالمے کی زبان میں کی گئی ہے صورت حال کی شدت میں اضافہ کر تی ہے۔منشاء یاد اپنے الفاظ میں معاشرے کی تلخی پوری طرح سمو دیتا ہے۔
”کو کھ پر پائوں”میں خاصے پختہ انداز میں نئی سوچ کے تازہ پہلوئوں کو سمیٹے ہوئے ہے ،جو کہ ایک معاشرتی رویے اور بیٹی کی پیدائش پر والد کی اُداسی ،دُور اس کے نہ رہنے کی خواہش کی ترجمانی ہے ۔وہ دُکھ جوماں اِن رویوں کا اُٹھاتی ہے اس کی مکمل ترجمانی کی گئی ہیں۔
”سلاٹر ہائوس ”ایک افسانے سے زیادہ احتجاج ہے جدید زندگی کے خطرات کے خلاف لیکن یہاں بھی اہم بات یہ ہے کہ دیہات کو پناہ گاہ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا ۔بلکہ وہاں کے خطرات سے آگہی تو اور بھی شدت سے محسوس کی گئی ۔منشاء یاد نے اپنے افسانو ں میں پنجابی کے الفاظ کی کثرت سے استعمال کیے ہیں لیکن بنانے کے لیے نہیں بلکہ افسانے کی ہیبت اور المیہ شدت میں اضافہ کرنے کے لیے ۔
”گرم اور خوشبودار چیزیں ”میں ثابت کیا گیا کہ انسان چاہے دنیا سے کتنا ہی کٹ کیو ں نہ جائے باہر حال اس کو اس دنیا کے رشتوں کو نبھانا مجبوری ہے۔جس سے فرار ممکن نہیں بلکہ کامیاب زندگی کا راز ان کو بہتر انداز میں نبھانے میں ہے۔”درخت آدمی” میں محبت کا ایک اُچھوتا احساس واضع کیا گیا کہ اگر کسی انسان کو کسی چیز سے محبت ہو جائے تو اسی کے ساتھ جیتا اور مرتا ہے ۔اور اگر اس کو اس چیز سے دور کیا جائے تو وہ اس کی کمی کونہ محسوس کرتا ہے بلکہ اس کی اہمیت اس کے ساتھ زندہ رہنے والے انسانو ں کے برابر ہو جاتی ہے۔
” شجرے سایہ “میں لڑکی کے سر پر باپ کے سایے کی اہمیت کو بیان کیا گیا اور اس خوبصورت انداز میں کہ انسان چاہے کتنا ہی ظالم کیوںنہ ہو جائے اپنی اولاد کو جان سے نہیں مار سکتااور باپ کا سایہ لڑکی کی زندگی کے لیے ایسے ہی اہم ہے جیسے سر پر آسمان اور وہ لڑکی بالکل اس درخت کی مانند ہے جو سو کھ چکا ہو اور دیمک اس کی جڑوں کو کاٹ چکی ہو اور ایک ہلکی سی ٹھیس بھی اس کو گرانے کے لیے کافی ہو۔
منشاء یادکے افسانے دوسرے افسانوں سے بے حد مختلف ہے ان کے کو ئی سے دو افسانوں کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر دیکھیں توپتہ نہیں چلتا کہ ایک ہی لکھنے والے نے ان دونوں کو کیسے لکھ دیا ۔ہر افسانہ اپنے انداز میں مختلف اور ایک نیا طرز بیاں رکھتا ہے اور ہر افسانے میں ایک نئی سوچ نظرآتی ہے۔
ادب تاریخ میں ایک سرمائے کی صورت صرف تب ہی یاد کھا جاتا ہے جب اس کے اثرات معاشرے پر مثبت انداز میں مرتب ہوں۔ ادب کی کوئی بھی صنف ہو چاہے شاعری ہو یا ناول، نثر ہو یا افسانہ ہر جہت معاشرتی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اور منشاء یاد جیسے بہت سے لکھاری موجود ہیں جو معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار حصہ بقدرے جثہ کی صورت ادا کر رہے ہیں۔ اگر ادب کو معاشرتی اصلاح کے لیے مستقل بنیادوں پر استعمال کیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ معاشرہ بہتر جلد ترقی کی نئی جہتیں حاصل کر سکتا ہے۔
تحریر: شہزاد حسین بھٹی