دل میں یہ خیال آتے ہی اس کے پورے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی کہ محبت زندگی کی ایک ضرورت ہے۔ ہمیں زندگی میں کئی بار یہ بتایا جاتا ہے کہ محبت کئی مشکلوں سے بچاتی ہے۔ یہ زندگی کی دھوپ میں سر پہ چادر کی طرح ہے۔ سوائے ان کے جو محبت کی قدر نہیں کرتے، بلکہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو لفظ رومان سننا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ وہ بے نیاز اپنی دُھن میں رہتے ہیں۔ وہ کسی اور ہی دیار کے باسی ہوتے ہیں اور محبت کے اجالوں سے دور ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کار غالیچہ و جواہر تو صرف فرصت کا مشغلہ ہے۔
اس جملے نے تو اسے تقریباً مدہوش ہی کر دیا کہ محبت ہر ایک پر اثر کرتی ہے خواہ وہ کوئی ادھیڑ عمر گھریلو عورت ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ کہیں دور دراز دیہات میں یا پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتی ہو۔ اور خواہ اس پر ماں کی حیثیت سے، بیوی کی حیثیت سے، کتے کی سرپرست کی حیثیت سے، اور گھر کی دیکھ بھال کرنے والی کی حیثیت سے بے شمار ذمہ داریوں کا بھاری بھرکم بوجھ ہی کیوں نہ ہو۔ محبت ہر ایک کے دل میں گلابی گل کھلانے کی طاقت رکھتی ہے۔ آنکھوں کےلیے جشن کا سامان کرتی ہے۔ دل کو اضطراب بخشتی ہے اور اسے نور و نغمگی عطا کرتی ہے۔ یہ کسی وادی میں گھومتا ایک شریر چشمہ ہے جو سب کو سیراب کرتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ محبت وہ عظیم جذبہ ہے جو جس طرح پیدا ہوتا ہے، اسی طرح اچانک غائب بھی ہو جاتا ہے۔ یہ راہ دشوار کی دھول اور بے سائبان زندگی ہے۔ اس شجر کی دیکھ بھال بہت تندہی سے کرنا پڑتی ہے۔ اگر دریائے محبت قریب سے بہتا رہے تو دل کی زمین شاداب رہتی ہے اور نئے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ ورنہ یہ پودا مرجھا جاتا ہے۔ جب یہ بات ہماری طرح پروین شاکر کو کرنا پڑی تھی تو انہوں یہ اسلوب اپنایا تھا:
راہ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
لیکن بہرحال مجموعی طور پر محبت کایا پلٹ دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ ایک عجیب جذبے سے سرشار کرتی ہے جو وجد آفریں ہوتی ہے۔ جیسے رومی اور شمس تبریز کی محبت، ہر لالچ اور غرض سے پاک ایک لازوال جذبہ، جس میں انتہائی سادگی، پاکیزگی اور بے غرضی ہے۔
ان دونوں کی ملاقات 1224 میں ترکی کے شہر قونیہ میں ہوئی۔ شمس ایک درویش صفت انسان تھے۔ اس اچانک ملاقات نے دونوں کی زندگی بدل دی۔ گویا علم کے دو سمندر آپس میں مل گئے ہوں۔ شمس کی دلنشین باتوں سے رومی کی زندگی بالکل بدل گئی اور وہ ایک عام جماعت سے عارفانہ اور صوفیانہ راہ کی طرف آگئے۔ مزاج میں ٹھہراؤ آ گیا اور محبت نےاسے اپنے حصار میں لے لیا۔ اس نے ایک درویش کا روپ دھار لیا، رسمی و رواجی قوانین کو خیرباد کہہ دیا۔ تعصباتی جھگڑوں سے دور ہوگئے اور روحانی و کائناتی علم کی طرف متوجہ ہو گئے۔
جہاں ان کے نئے خیالات کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے جھٹلا دیا وہیں بہت سے لوگ پیارو محبت کی طرف بھی راغب ہوئے۔ لوگوں نے رومی اور شمس پر بہت بہتان طرازی کی۔ ان کے دل دکھ سے بھر گئے مگر اس دکھ کی تہہ میں خوشی کی بےقرار لہریں تھیں۔ درحقیقت ان کے خیالات کو کسی نے سمجھا ہی نہیں تھا۔ مگر یہ کہانی ختم نہیں ہوئی، اگر اس کا صحیح خطوط پر جائزہ لیا جائے تو یہ کبھی ختم بھی نہیں ہوگی۔ آٹھ سو سال گزر گئے شمس اور رومی آج بھی وقت کے سینے میں دھڑک رہے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ مرد اور عورت ہمیشہ محبت کے حصول کےلیے کوشاں رہتے ہیں۔ دولت بھی کئی بار اسی توجہ کو حاصل کرنے کےلیے جمع کی جاتی ہے۔ عزت نفس، توقیر ذات، خودی کا تصور بھی اسی محبت کے شاخسانے ہیں۔ پہلے عورت کےلیے دردِ زہ ہی کافی تھا، اب اس نے درد دل اور غم روزگار بھی پال لیا ہے اور غزل کے شعر کی طرح اپنی چھوٹی سی کائنات میں طوفان اٹھائے پھرتی ہے۔
یہ تھی ایک انسان کی ایک دوسرے انسان سے بے مثال محبت کی مثال، اب ذرا بندے اور اللہ کی محبت کی مثال بھی ملاخطہ فرمائیے۔
ایک دن حضرت موسٰی۴ اپنی پہاڑیوں پر سیر کر رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر ایک چرواہا جا رہا ہے۔ وہ ذرا سا آگے کو جھکا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ دعائیہ انداز میں آسمان کی طرف اٹھے ہوئے ہیں۔ موسٰی۴ کا دل بہت خوش ہوا۔ مگر جب وہ ذرا نزدیک گئے تو چرواہے کے الفاظ سن کر حیران رہ گئے۔ ان کا ذہن اس عجیب و غریب دعا کو گرفت میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ کہہ رہا تھا ’’اے میرے پیارے اللہ! مجھے آپ سے اس قدر محبت ہے جتنا کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں ہر وہ کام کرنے کو تیار ہوں جس کا آپ حکم دیں گے۔ یہاں تک کہ اگر آپ سب سے موٹی بھیڑ بھی قربان کرنے کو کہیں گے تو میں قربان کر دوں گا۔ اور وہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔ اگر آپ اس کی دم چاول میں ڈال کر پکائیں گے تو یقیناً بے حد لطف اندوز ہوں گے۔‘‘
حضرت موسٰی۴ نے دو قدم اور آگے بڑھا دیے تاکہ مزید اچھی طرح سن سکیں۔
’’میں اور بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں اس کے کان اور پاؤں بھی آپ کو بھجوا دوں۔ مجھے یہ دونوں چیزیں بے حد پسند ہیں۔‘‘
حضرت موسٰی۴ سے مزید برداشت نہ ہو سکا، انہوں نے احتجاجاً چرواہے کو روکا۔ ’’بس کرو جاہل آدمی! کیا تمہیں اندازہ ہے کہ تم کیا بکواس کر رہے ہو؟ کیا تمہارا خیال ہے کہ خدا چاول کھاتا ہے؟ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، بلکہ ایک طرح سے اس کی توہین ہے۔‘‘
چرواہا شرمندہ ہو گیا۔ اس کی حیران نظریں تیر کی طرح موسٰی۴ پر برس پڑیں۔ اس کا کلیجہ دھڑ دھڑ بجتا محسوس ہوا۔ اس نے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ وہ نیک آدمی بن جائے گا اور صحیح طریقے سے عبادت کرے گا۔ حضرت موسٰی۴ نے اسے بہت سی دعائیں یاد کرائیں اور پھر اپنے راستے پر چل پڑے اور دل ہی دل میں خوش ہوتے رہے کہ کیا نیک کام کیا۔
مگر اس رات حضرت موسٰی۴ کو خدا کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے موسٰی! یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے اس غریب چرواہے کو جھڑک دیا۔ تم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ وہ کس طرح میری عزت اور تعظیم کرتا ہے۔ یہ درست ہے اس کے الفاظ نامناسب تھے، مگر وہ دل سے میری قدر کرتا تھا۔ اس کے ارادے نیک تھے اور دل صاف تھا۔ میں اس کی باتیں سن کر خوشی محسوس کر رہا تھا۔ تم نے ان باتوں کو ہتک آمیز سمجھا، مگر میری نگاہ میں وہ نہایت خوش کن اور دل آویز باتیں تھیں۔‘‘
حضرت موسٰی۴ کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح وہ پہاڑوں کی جانب چل نکلے تاکہ اس چرواہے سے ملاقات کریں۔ ایک جگہ وہ انہیں عبادت کرتا ہوا نظر آ گیا اور اس بار وہ ان ہی کی ہدایت کے مطابق عبادت کر رہا تھا۔ حضرت موسٰی۴ نے آگے بڑھ کر اس کو شاباش دی اور کہا: ’’میرے دوست میں غلطی پر تھا، برائے کرم مجھے معاف کر دو۔ تم اپنے ہی انداز میں عبادت کرو، خدا کی نظروں میں وہ زیادہ مقبول ہے۔‘‘
یہ سن کر چرواہے کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ اس نے مکئی کے دانوں جیسی جہاندیدہ آنکھوں سے حضرت موسٰی۴ کو دیکھا، لیکن پھر کچھ سوچ کر اسے اطمینان ہوا۔ اس کی آنکھوں میں مسکراہٹوں کے ستارے ٹمٹمانے لگے، اس کی ہیجانی انداز میں متحرک پتلیاں سچ بول رہی تھیں۔ وہ اب پرانا طریقہ کار تو دہرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی ان اطوار کو چھوڑ سکتا تھا جو حضرت موسٰی۴ نے اسے بتائے تھے۔ چنانچہ اس نے اب ایک اور انداز اپنا لیا اور نئی صداقتوں کے دیے جلا کر خدا سے باتیں کرنے لگا۔