تحریر : مجید احمد جائی
کہتے ہیں نیک اعمال کا سارا سلسلہ زندگی سے وابستہ ہے۔ انسان زندہ ہے تو نماز پڑھ سکتا ہے،روزہ رکھ سکتا ہے،قرآن پاک کی تلاوت کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے صدقہ خیرات سے غریب بھائیوں کی مدد کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگرتم توبہ کرکے میری طرف رجوع کرو گے تو تمھاری زندگی کے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت کے لئے ہے کہ انسانکی زندگی اس کا ساتھ دے اور اس کے ساتھ ساتھ توبہ کا موقع میسر آجائے۔ لیکن جب آخری وقت آگیااور عالم نزع طاری ہوگیا تو پھر رجوع الی اللہ ہے نہ توبہ۔ موت کے بعد سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں پھر بندہ روزہ رکھ سکتا ہے ،نماز پڑھ سکتا ہے اور اپنی جمع شدہ دولت کو کسی مصرف میں لاسکتا ہے۔
صحیح مسلم شریف میں ہے حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایاکہ مگر چند اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعدبھی ملتا رہتا ہے۔مشلا کسی نے نہر کھدوادی،کسی نے کنواں بنوا دیایا کسی نے دینی درسگاہ میں کتابیں وقف کردی۔کسی نے درخت لگا دیا۔یہ ایسے کا م ہیں کہ جب تک لوگ اسے سے استفادہ کرتے رہیں گے اسے اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے تو پھر کیوں ناں ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر اپنی آخرت دُنیا ہی میں سنوار جائیں۔ہم ہر سال شجر کاری مہم ایک تہوار کی صورت میں تو ماناتے ہیں ،سرکاری نجی اداروں کے آفسران فوٹو شیشن بھی کرواتے ہیں۔شجرکاری مہم کا آغاز جس زور و شور سے ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ بھی جاتا ہے۔صرف اسی دن پودے لگا تو دیتے ہیںلیکن پھر کبھی مڑ کر نہیں دیتے۔پودا بیچارہ مرجھا کر زمین میں مل جاتا ہے۔
ہر سال پاکستانی عوام اپنے نام کا پودالگا کر پھر اس کی نگہداشت بھی کرتی توآج پاکستان تندرست و توانا ہوتا۔کوئی بیماری ہوتی نہ آلودگی کا رونا رویا جاتا۔مہنگائی ہوتی نہ کرپشن مگر کیا کریں صاحب۔ہم نے شارٹ کٹ ڈھونڈ لیا ہے۔کرپشن میں اتنے ماہر ہو گئے ہیں کہ خود کرپشن ہم سے شرمانے لگی ہے۔اس وطن کے ہر شہری نے نہروں کے کنارے،مین سڑکوں کے کنارے لگے درخت تو دیکھے ہوں گے۔مگر ٹنڈ منڈ ،آدھے کٹے ہوئے۔جن کو ان کی حفاظت پر معمور کیا انہوں نے ہی تجوریاں بنالی۔ناجانے کرپشن کرنا سیکھایا کس نے۔کیسا شخص ہو گا جس نے پہلی رشوت لی ہوگی۔جس نے کرپشن ایجاد کی ہوگی۔بجلی ایجاد کرنے والا ،بجلی لگنے سے ہی مر گیا ،کرپشن ایجاد کرنے والے کے ساتھ کیا حشر ہوا ہوگا۔کون جانے۔
درخت ہمیں آکسیجن مہیا ہی کرتے اس کے علاوہ ان سے ذائقے دار پھل بھی حاصل ہوتے ہیں۔ان سے حاصل ہونے والی لکڑیوں سے تراش خراش کرکے دیدہ زیب الماریاں،دروازے،بناتے ہیں۔گھر کی آرائش میں ان کا بڑا عمل دخل ہے۔درخت نہ ہوتے تو شاید اشرف المخلوقات کا جینا دوبھر ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی صورت جنت نظیرملک ہمیں عطا کیا ہے۔اس میں چاروں موسم آتے ہیں۔پھلوں میں اسے شہریت حاصل ہے۔جیسے پھلوں کا بادشاہ آم، پاکستانی آم کی پوری دُنیا میں چرچے ہیں۔ کینو، مالٹے، سیب ، انار، امردو، اخروٹ کیا کچھ نہیں ہوتا جہاں۔لیکن اس ملک کے باسیوں نے خود کو معذور کر لیا ہے۔ بیرونی طاقتوں کے غلام ہو گئے ہیں۔اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔محکمہ جنگلات کو دیکھئے۔ایسے ایسے کرپشن کے ناسور پیدا ہو گئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔دن ڈیہاڑے لکڑیاں کاٹی جا رہی ہیں۔ٹرک ،ٹرلیاں لوڈ ہو رہے ہیں۔جنگلات کے جنگلات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔چھانگا مانگا کی حالت زار پر رونا آتا ہے۔طویل لمبی نہروں،سڑکوں ے کنارے ٹنڈ منڈ اجڑتے درخت ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ان آنکھوں نے جنگلات سے لکڑیاں چوری ہوتے دیکھا ہے۔
آفسر بڑی ڈھٹائی سے رقم وصول کرتے ہیں اور بھیڑبکریوں والوں سے بھتہ وصول کر کے ان کو لکڑیاں چوری کرنے کے طریقے بتاتے ہیں۔سدانو بہارنہر،ایسی کئی نہریں ان کی کارگردگی کا پتہ دے رہی ہیں۔اسی طرح درخت بڑھنے کی بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں اور بیماریاں منہ زور گھوڑے کی طرح ڈوری چلی آتیں ہیں۔آج میرے پیارے وطن میں ہزاروں بیماریاں آچکی ہیں۔کرپشن کے شہزادوں نے ہمیں بیماریوں کے حوالے کردیا ہے۔درختوں اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔آج ہر دوسرا انسان سانس کی بیماری میں مبتلا نظر آتا ہے۔درخت جو آکسیجن مہیا کر تے ہیں ان کو بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔نہ کوئی روکتا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے۔ناجانے ہمارے عقلوں پر قفل کیوں لگ گئے ہیں۔جو درخت ہمیں مختلف اقسام کے پھل دیتے ہیں،جن کے بے شمار فوائد ہیں۔ہم جانتے بھی ہیں اور پھر بھی گونگے ،بہرے ہو کر اپنے پیٹ کے لئے دوسروں کے پیٹ کاٹ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے آج ہر سوں فضائی آلودگی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ہمیں چاہیے اپنے آبائو اجدا د کے لگائے ہوئے درختوں کی حفاظت کریں اور زیادہ سے زیادہ نئے پودے لگا کر ان کی نگہداشت کریں۔دُنیا میں ان سے بے شمار فوائد حاصل کریں اور آخرت میں بھی رسوا نہ ہوں ۔درخت لگانا صدقہ جاریہ بھی ہے اور جس نے دنیا میں ایک درخت لگایا اس نے جنت میں اعلی شان گھر پایا۔جنت کا ہر مسلمان خواہاں ہے پھر کیوں ناں ایسے کام کیے جائیں جن سے جنت ہمیں خود پکارے۔درخت لگائیے ملک کو فضائی آلودگی سے بچائیے۔ مجرمانہ حرکات کرنے والوں کو مل کر کیفرکردار تک پہنچائیں تاکہ میرے وطن سے ا ن ناسوروں کا خاتمہ ہو سکے اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جائے۔
تحریر : مجید احمد جائی
0301-7472712
majeed.ahmed2011@gmail.com