تحریر: انجینئر افتخار چودھری
٢٣ مارچ ٢٠١٥ کو ہم چھہترواں یوم زادی منانے جا رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو منٹو پارک لاہور میں اکٹھے ہوئے یہ وہی جگہ ہے جہاں ج کل مینار آزادی کھڑا ہے۔پچھہتر سالوں میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔صرف سات سالوں میں پاکستان حاصل کرنے والی قوم سچے جذبوں اور ایمان اور اتحاد والی قوم نیا ملک حاصل کرنے کے چوبیس سال بعد آدھا حصہ گنوا بیٹھی۔پاکستان قائد اعظم کا پاکستان ہم سے سنبھالا نہ جا سکا۔اس خوبصورت دن جو پاکستان کا عظیم دن ہے اس دن جہاں ہم خوشیاں منانے نکلیں خود احتسابی کے عمل سے بھی گزریں تو بہتر ہو گا لیکن آج کا دن حوصلہ دینے اور عزم ہ ہمت بڑھانے کا دن ہے۔میں چشم تصور میں اپنے آپ کو پون صدی پیچھے لے جانے کی کوشش کروں گا۔انسانوں کا سمندر ہے لوگ برصغیر کے کونے کونے سے لاہور پہنچے ہیں لاہور کی فضا سوگوار ہے چار روز پہلے خاکساروں پر قیامت گزر چکی ہے بہت سوں کا خیال تھا کہ اس اجلاس کو ملتوی کر دی اجائے۔لیکن مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے فیصلہ کر لیا کہ اجلاس ہو گا۔
میں نے دیکھا کہ کہ قرارداد شیر بنگال مولوی فضل حق پیش کر رہے ہیں اس کی تائید چودھری خلیق الزمان نے کی۔ سٹیج سجا ہوا ہے قاید رونق محفل ہیں وہاں ایک شعر جلی حروف میں لکھا تھا۔ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے میں اگر تحریک پاکستان کے آغاز سے لے کر آج تک کی داستاں رقم کروں تو اس شعر کی تفسیر ہی بیان کردوں تو کالم کیا کتاب لکھی جا سکتی ہے۔مجھے پاکستان ایک سورج نظر آتا ہے جو کبھی مجھے ڈوبتا نظر آتا ہے اور کبھی ابھرتا۔میرا ایمان پختہ ہو جاتا ہے جب میں پاکستان کو دنیا کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہوں کھیل کا میدان ہو یا میدان جنگ ذہانت کی کشتی ہو دنیا میں امن و سکون کی کوششیں کرتے ممالک ہوں ان سب میں پاکستان موجود ہے۔یقین کیجئے کتنی آندھی ہے اور کتنے طوفان مگر میں اس ملک کو آج بھی روشن روشن دنیا کی جبین پر دیکھتا ہوں۔
پاکستان تخیل ہے ،جو من کی لہروں کے نیچے ،جذبات کی رنگیں سیپوں میں۔ جل پریوں کے اشکوں کی طرح، موتی کی شکل میں رہتا ہے مجھے جذبات سے کسی کو بہلانا نہیں مگر پوری دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں پاکستان کے ان دنوں کو پاکستانی جس جوش و خروش سے مناتے ہیں کسی اور ملک کے باسی اپنے وطن کے قومی دنوں کو ایسے نہیں مناتے۔خدا سمجھے جنرل اسد درانی کو جس نے پاکستانی کمیونٹی جدہ پر شب خان مارا اور کمیونٹی کے سرکردہ افراد کو جیلوں میں بند کروا کر پاکستان روانہ کرایا۔میں اور میرے دوست اس ملک سے محبت اور پیار کا ستعارہ تھے میرا گھر وہ گھر تھا جہاں ٢٣ مارچ کو سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چراغاں کیا گیا،جس گھر میں رہا اسے پاکستان ہائوس کا نام دیا۔مارچ ٢٠٠٢ میں جب یہ بجلی ہم پر گری میں جدہ کی ترحیل کے عنبر نمبر تین کا قیدی تھا محبوس تھا مجھے دھر لیا گیا تھا کہ میں نواز شریف کا ساتھی ہوں میں اکیلا نہ تھا میرے ساتھ اور بھی تھے عظمت خان نیازی نعیم بٹ مسعود پوری خواجہ امجد مرزا آفتاب اقبال ،شہباز دین بٹ ڈاکٹر قسیم سب کا یہی قصور تھا کہ ہم پاکستان پاکستان کیا کرتے تھے۔اس روز ٢٣ مارچ تھا ٢٠٠٢ کی صبح کو نماز پڑھنے کے بعد سو کر اٹھے ناشتے کے لئے زیتون جبنہ زبدہ روٹیاں مکھن پنیر وغیرہ آ گیا۔
وسیم جو مرحوم حامد صدیقی کا بیٹا تھا جس بیچارے نے نواز شریف کا منہ بھی نہ دیکھا تھا اسے اٹھایا میں ٢٣ مارچ کے موضوع پر گفتگو کی اور کہا پچھلے سال گھر روشن کیا تھا اس بار اندھیروں میں آن پھنسا ہوں وسیم نے کہا کہ دل کرتا ہے انڈیا کا دن منائوں۔میں نے ٹوک دیا اور کہا کرائے دار غلط آ جائیں تو پتھر مار کر اپنا گھر نہیں توڑتے،وہ یوم پاکستان نہیں بھولتا۔آج سوچتا ہوں اسی طرح کی سوچ ہمارے ہاں کیوں عود آئی ہے چندلوگ اپنے ہی وطن کے خلاف کیوں ہیں۔الطاف حسین بھی تو انہی مسلمانوں کی اولاد میں سے ہے جنہوں نے اس ملک کو بنایا انہی لوگوں میں سے جو لاہور میں سٹیج سجاتے رہے۔جہاں میں اہل ایماں کی اولاد۔سوچتا ہوں کس طرح اس ملک کو حاصل کیا جب مشرقی پنجاب سے عشاق کے قافلے نکلے تو ان کے سروں کو سکھوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹا کسی نے نہیں پوچھا اردو بولتے ہو پنجابی ہو۔
کتنے ارمانوں کے ساتھ نئے وطن میں آنے کی چاہ میں مر گئے کٹ گئے۔جسٹس شریف کمیشن کی رپورٹ دیکھ لیں کتنا کرب اور دکھ ہے۔پاکستان کو کرچی کرچی کرنے والو کبھی سوچا آپ نے کہ پچیس ہزار سے زائد مسلمان عورتیں سکھوں کے حرم میں چلی گئیں اتنی ہی اندھے کنووں میں جان دے بیٹھیں سر ہوئے قلم قلماں کٹیاں عزت دی ٹینی نالوں عذرا بانو سلمی کٹیاں فیر اے جا کے موقع بنیا پاکستان کوئی سوکھا بنیا؟ محسن علوی جدہ کا معروف شاعر ہے اس کے شعر تو مجھے یاد نہیں فرزند کراچی ہے اس نے اسی کو موضوع بنایا اور کہا کہ اس ملک کے لوگوں کو تو یاد نہیں کی کس طرح عشاق کے قافلے رہگزروں پر لوٹ لئے گئے مار دیے گئے اس ملک کی قدر ہم نے نہیں جانی۔ لیکن ٹھہریے ایسا ہر گز نہ ہو گا۔
پیار محبت کی ڈال پر بنے گھونسلوں سے اڑے پنچھی ضرور اپنی ماں کے پاس واپس آئیں گے۔کسی سرنگ کے آخری کنارے پر جو روشنی ہے وہ میرے اجلے پاکستان کی روشنی ہے۔میں نے اعداد وشمار سے ہٹ کر جذبات سے کام لیا اور وہ اس لئے کہ پاکستان جذبوں ہی سے بنا تھا،اسے چودھری رحمت علی اور اقبال نے سوچا تھا اسے قائد اعظم نے عملی جامہ پہنایا تھا اس کی یادوں میں میرا اور تیرا لہو ہے۔اسے نہ تو کوئی الطاف ہم سے دور کر سکے گا اور نہ ہی رعونت سے بھرے لہجے والا اسد درانی۔اس لئے کہ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے جدہ کی ترحیل جیل بھی نہیں رہی منٹو پارک بھی نہیں ہے آزاد ہوں میں اور معصوم بچے کی کلکاریاں مارتا پاکستان میرے اور آپ کے سامنے ہے۔ رات تو آخر رات ہوتی ہے سویرا تو ہو کر رہے گا میرے پاکستان کی روشن جبیں تا ابد رہے گی۔انشاء اللہ
تحریر: انجینئر افتخار چودھری