کچھ صحابہ اکرام رضوان علیہم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے دَمِ واپسیں سے کچھ پہلے سوال کیا کہ اُن کے بعد کسے امیرالمومنین منتخب کیا جانا چاہیے۔ صدیقِ اکبرؓ نے جواب دیا کہ اُن کے خیال میں عمرؓ بہتر ہیں۔ صحابہ اکرامؓ نے کہا کہ وہ سخت مزاج ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا ’’جب ذمہ داریوں کا بوجھ پڑے گا تو خود ہی نرم ہو جائے گا‘‘۔تاریخ نے ثابت کیا کہ رزمِ حق وباطل میں فولاد بن جانے والے امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو لوگوں نے اپنے کندھے پر اناج کی بوری اُٹھائے بیوہ کے گھر جاتے ہوئے بھی دیکھا۔ ارسطوانِ دہر کا کہا بجا، لیکن ہمارے ہاں تو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا رواج عام ہے ۔ یقیناََ کپتان کا مقصد یہ ہو گا کہ کہاں اپوزیشن میں رہتے ہوئے تھکا دینے والی جدوجہد اور کہاں ایٹمی پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ۔ وہ اندرونِ ملک ہوں تو نظریں اُن پر جمی ہوئیںاور بیرونِ ملک ہوں تو ریڈ کارپیٹڈ استقبال۔ ہر کوئی اُن کے اشارۂ اَبرو کا منتظر۔ وزراء کو کان سے پکڑ کر نکال دیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں، مشیروں کی فوج ظفر موج رکھ لیں تو کس کی مجال جو سوال اُٹھا سکے۔ ملک آئی ایم ایف کے گروی رکھ دیں تو فیصلے کی تحسین کرنے والے سینکڑوں اور اپوزیشن کو چور ڈاکو کہہ دیں تو لبّیک کہنے والے ہزاروں۔ غلطی تو کپتان سے بس ایک ہوئی، سیانے کہتے ہیں ’’آزمودہ را آزمودن جہل است‘‘ لیکن کپتان نے سارے آزمائے ہوئے گھوڑے اپنے گرد اکٹھے کر لیے۔ خیر! یہ اتنی بڑی غلطی بھی نہیں تھی کہ ’’حاضر سٹاک‘‘ میں یہی کچھ دستیاب تھا۔ اِسی لیے کپتان نے کہا ’’آسمان کے فرشتے کہاں سے لاؤں‘‘۔ جب اُنہیں احساس ہوا کہ یہ سب ’’نہلے دہلے‘‘ ہیں تو اُنہوں نے اپنے گرد ڈھیروں ڈھیر مشیر اکٹھے کر تے ہوئے کہا کہ
پانچ سال بعد عوام نے کارکردگی کے بارے میں اُنہی سے پوچھنا ہے اِس لیے وہ جتنے جی چاہے مشیر رکھیں گے، کسی کو کیا۔ اب اُنہوں نے وزیروں مشیروں کے ساتھ روحانیت کا تڑکہ‘‘ بھی لگا دیا ہے ۔ اپوزیشن پریشان کہ اگر روحانیت کے بَل پر کپتان نے سارے مسائل حل کر دیئے تو اُس کی سیاست ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہو جائے گی۔ اِس سے پہلے کپتان پریشان رہا کرتے تھے کہ اگر نوازلیگ نے اپنے دَور میں سی پیک کا منصوبہ مکمل کر لیا تو تحریکِ انصاف اگلے بیس سال بھی اقتدار میں نہیں آسکے گی۔ کپتان تو نوازلیگ کا مَکّو ٹھپنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصلحتوں کی بُکل میں لپٹی اپوزیشن میں اتنی سَکت ہی باقی نہیں جو کپتان کی حکومت کے لیے خطرے کا باعث بن سکے ۔۔۔۔ ہم البتہ خوش کہ اگر روحانیت کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو سارے چور ڈاکو جنات اُٹھا کر لے جائیں گے اور ہماری پانچوں گھی میں۔ ہمارا کپتان کو مشورہ ہے کہ وہ ’’صحت کارڈ‘‘ کے ساتھ ہر گھر میں ایک چراغ بھی رکھوا دیں تاکہ ہم چراغ رَگڑ کر جِن سے اپنی ضروریات پوری کرواتے رہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ چونکہ روحانیت کو ’’سُپر سائنس‘‘ کا درجہ دے دیا گیا ہے اِس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری کو وزیرِ ’’روحانیات و عملیات‘‘ قرار دیا جائے۔ ویسے ہمارے یہ فوادچودھری ہیں بڑی خاصے کی شے۔ اُنہیں اگر سمندر کی لہریں گننے کا وزیر بھی بنا دیا جائے تو وہاں بھی وہ اپنی ’’حرکتوں‘‘ سے باز نہیں آئیں گے۔ خان نے تو یہ سوچا ہوگا کہ چودھری کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر بناکر ’’نُکرے‘‘ لگا دیا لیکن یہاں بھی وہ ایسے لوگوں سے مَتھا لگا بیٹھے جو بڑے خطرناک ہیں۔ فواد چودھری نے اگلے پانچ سالوں کے لیے قمری کیلنڈر مرتب کرنے کی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس پر سارے مولوی چیںبچیں۔ فواد چودھری کہتے ہیں ’’جنہیں سامنے بیٹھا شخص نظر نہیں آتا، وہ چاند دیکھنے نکلے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ہر سال رمضان، عید اور محرم کے موقعے پر رویت ہلال پر تنازع پیدا ہو جاتا ہے ۔ رویت ہلال کمیٹیاں ٹیلی اسکوپس کی صورت میں پرانی ٹیکنالوجی استعمال کرکے اندازے لگاتی ہیں۔ جب ہمارے پاس جدید ذرائع موجود ہیں اور ہم حتمی تاریخ طے کر سکتے ہیں تو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیوں نہ کیا جائے۔ فوادچودھری نے یہ بھی کہا کہ اِس بات کا فیصلہ مولویوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا کہ ملک کیسے چلایا جائے۔ اُنہوں نے اگلے پانچ سال کا قمری کیلنڈر ترتیب دینے کے لیے کمیٹی بنا دی ہے جس پر سارے مولوی چیں بچیں۔ مفتی منیب الرحمٰن نے تَپ کر کہا ’’میں نے وزیرِاعظم عمران خاں سے کہا ہے کہ صرف متعلقہ وزیر کو مذہبی امور پر بات کرنی چاہیے۔ ہر وہ وزیر جسے مذہبی حساسیت کا علم نہیں، اُسے مذہبی امور پر تبصروں کے لیے کھلا لائسنس نہیں دینا چاہیے‘‘۔ رویتِ ہلال کا یہ جھگڑا اب بین الاقوامی میڈیا کا موضوع بھی بن چکا۔ اِس جھگڑے کے بنیادی کردار مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہیں۔ ایک کا تعلق بریلوی اور دوسرے کا دیوبندی مکتبۂ فکر سے ہے ۔ مفتی شہاب الدین کے پاس گھڑی گھڑائی بیس شہادتیں ہر وقت موجود رہتی ہیں۔
چاند نکالنا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اِس لیے وہ ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں جبکہ مفتی منیب پرانی دوربینوں کے ذریعے چاند تلاش کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں دو عیدیں ہو رہی ہیں۔ ایک مفتی پوپلزئی کی اور دوسری مفتی منیب کی۔ اب دیکھتے ہیں کہ اِن دو مفتیان کے ’’صدقے‘‘ ہمیں دو عیدیں نصیب ہوتی ہیں یا صرف ایک پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ جب کپتان کی تقریباََ ساری کابینہ ’’ٹھُس‘‘ ہو گئی تو پھر وہ مشیروں کا سہارا نہ لیتے تو کیا کرتے۔ اُنہوں نے روحانیت کا سہارا بھی اپنے اردگرد پھیلے ہوئے نااہل لوگوں کی وجہ سے لیا۔ سوال مگر یہ کہ کیا روحانیت کے سہارے وہ مہنگائی پر قابو پا لیں گے، پچاس لاکھ گھر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کر دیںگے؟۔ پچھلے پانچ چھ سالوں سے اُنہوں نے قوم کو جو سہانے سپنے دکھائے ہیں، اُن کا عشرَعشیر بھی پورا ہونا ناممکن۔ وہ لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے، روحانیت کا درس دیتے نظر آتے ہیں لیکن بھوکے پیٹ کہاں کی روحانیت اور کیسی روحانیت۔ اِس لیے ہمارا کپتان کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ روحانیت کا درس دینے کی بجائے عوام کے لیے روٹی کا بندوبست کریں اور یہ رَٹ چھوڑ دیں کہ پچھلی حکومت خزانہ خالی چھوڑ گئی ہے کیونکہ ایسا ہر آنے والی حکومت کہتی رہتی ہے جسے سُن سُن کر کان پَک گئے ہیں۔ اُنہیں علم ہونا چاہیے کہ اُنہیں نجات دہندہ سمجھنے والے بھی اُن کے خلاف ہو چکے۔ ایک معروف لکھاری جو اُن کے دھرنوں میں بھی پائے جاتے رہے، آجکل تحریکِ انصاف کے خلاف آگ اگلتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے تازہ ترین کالم میں طنز کے تیر برساتے ہوئے لکھا ’’نیا پاکستان۔۔۔۔ فردوس عاشق اعوان، ۔۔۔۔ کبھی دِل دِل پاکستان، آجکل بِل بِل پاکستان،۔۔۔۔ رمضان بازار، عثمان بزدار،۔۔۔۔ دھرنے اور کرنے میں فرق ہے ‘‘۔ کپتان صاحب جن کی کامیابی کے لیے ہم ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں، اپنے مدح سرا کے تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیںاور قوم سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کی کوشش کریں کہ اِسی میں سب کا بھلا ہے ۔