counter easy hit

قبائلیوں کی مشکلات اور حکومتی اقدامات

Fata Operation

Fata Operation

تحریر: غلام رضا کانگو
اس میں کوئی شک نہیں کہ فاٹا طالبان ازم کا سب سے زیادہ شکار ہوا ہے ،فاٹا کے شہری دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، وفاقی حکومت پوچھتی ہے نہ ہی صوبائی حکومت آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کیساتھ ساتھ آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی بھی جاری ہے مگر جن علاقوں میں وہ واپس جا رہے ہیں وہاں بنیادی سہولیات کا وجود تک نہیں، تمام قبائلی نہ تو طالبان کے حامی ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں، قبائلیوں کا یہی ماننا ہے کہ پاکستان کے حالات درست سمت نہیں جا رہے ،قبائلی بچوں کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں،کچھ قبائلی فوجی آپریشن کے حق میں بھی نہیں، حکومت کو چاہئے کہ قبائلی عوام پر کوئی بھی فیصلہ مسلط نہ کرے،قبائلیوں کی مشاورت سے ہی سب کچھ کیا جائے۔

حکمرانوں کو چاہئے کہ قبائلی عوام کے سیاسی،آئینی اور انسانی حقوق دلائے ،قبائلی علاقہ جات میں تعلیم کا کوئی معیار نہیں،نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا،قبائلی عوام آپریشن کے دوران اپنے گھروں تک سے محروم ہوچکے ہیں،اپوزیشن جماعتوں کو بھی چاہئے کہ حکومت پر دبائو ڈالے کہ قبائلیوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔قبائلی عوام نے بہت صبر سے کام لے لیا ہے میرا تو خیال یہ ہے اب قبائلی عوام اپنے حقوق کیلئے کھڑا ہو جانا چاہئے مر مر کر جینے سے بہتر ہے ایک ہی دفعہ مر لیا جائے،بچوںکو مرتا دیکھنے سے بہتر ہے میدان جنگ میں آجائیں اگر نہیں تو یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا،قبائلی عوام کو انگریز شکست نہیں دے سکا قبائلی عوام نے ہمیشہ بغیر کسی مفاد کے پاکستانی سرحدوں کی حفاظت کی ،آج کے جدید دور میں بھی ہماری قبائلی مائیں اور بہنیں پانی کے مٹکے سروں پر اٹھائے میلوں کا سفر کرتی ہیں،مہمند ایجنسی میں تعلیمی ادارے ویران اور تباہ ہو چکے ہیں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور قبائلی عوام کو علاج کے لئے میلوں کا سفر کرکے پشاور جانا پڑتا ہے۔

Tribes

Tribes

قبائل ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کے ہاتھ میں کتاب دیکھنا چاہتے ہیں۔نواز شریف حکومت نے گزشتہ بجٹ میں قبائلی عوام کی تراقی کے لیے صرف 18 کروڑ روپے رکھے ہیں جن سے ایک بڑی سڑک بھی نہیں بن سکتی۔ قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے ایک بڑا مالیاتی پیکیج دیا جانا چاہئے اور انھیں زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی دینے کے لیے وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں،انھیں تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کی جانی چاہئیں،حکومت نے اعلان تو کیا ہے اس سال کے آخر تک قبائلی عوام اپنے گھروں کو باعزت واپس بھیج دیئے جائینگے مگر کل کو کیا ہو کیا پتہ،پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ،دشمن ہمارے وطن کومیلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتاکیونکہ 18کروڑعوام دفاع وطن کیلئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔آپریشن ضرب عضب ملک دشمن عناصرکو کچلنے کا نام ہے اور قوم کوافواج پاکستان پربھروسہ ہے اورضرب عضب کوکامیابی کیساتھ منطقی انجام تک پہنچایاجائیگا۔ قبائلیوں نے ماضی میں بھی وطن عزیزکے سرحدات کی حفاظت کی اورانشااللہ ہمیشہ اس مٹی کی حفاظت کیلئے سربہ کفن ہوں گے۔مگر حکومت کو چاہئے جب بھی قبائلیوں کی واپسی مکمل ہو جائے تو انہیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں ،قبائلی عوام کے بہترین مستقبل اورانکوپاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح برابرحقوق دلانے کیلئے فاٹامیں نئے اصلاحات کانفاذ عنقریب لایاجائے۔

قبائلی عوام کا ہمارے ساتھ بھائیوں کا رشتہ ہے،ہمیں ان کو خود سے الگ نہیں کرنا چاہئے،آخر میں قبائلی علاقے کی بات کر لی جائے تو یہ 27220 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے،قبائلی علاقہ جات کے مشرق میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اور جنوب میں بلوچستان واقع ہے،قبائلی عوام کی آبادی 50 لاکھ کے قریب ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ فاٹا تو پاکستان کا حصہ ہے مگر کسی صوبے کی حیثیت نہیں ملی،قبائلی علاقہ 7 ایجنسیوں خیبر ایجنسی،کرم ایجنسی،باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی،شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے ،پشاور ،ٹانک،بنوں،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ 6 سرحدی علاقے بھی موجود ہیں، اہم شہروں کی بات کی تو اس میں پارہ چنار، میران شاہ،میر علی، باجوڑ، وانا اور درہ بازار شامل ہیں۔حکومت اور فوج کو ملکر چاہئے کہ قبائلی عوام کی جتنی ہو سکے مدد کر سکے وہاں کے ایم این اے جو چند ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوا ہے اس سے بھی رائے لینا ضروری ہے،کوئی بھی فیصلہ مسلط کرنے سے پہلے قبائلی عوام کی رائے لے لینا بہت ضروری ہے۔

Ghulam Raza

Ghulam Raza

تحریر: غلام رضا
ای میل: hurmateqalam@gmail.com
فون نمبر:0331-4260460
فیس بک آفیشل پیج: hurmateqalam/www.fb.com