پاکستان اور تاجکستان کے درمیان سرحدی علاقے میں واقع یہ قبیلہ دنیا سے اس قدر الگ ہے کہ یہاں کے باسی نہ تو طالبان کو جانتے ہیں اور نہ ہی انھیں افغانستان پر امریکی فوج کے حملے کا پتہ ہے۔
کابل: غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے اندر علاقے کو واخان کوریڈور کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قبیلہ گزشتہ دو ہزار برس سے پہاڑوں میں آباد ہے۔ یہاں کا رہائش قبیلہ 12 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بیشتر کو کچھ خبر نہیں کہ نائن الیون کب ہوا، طالبان کون ہیں اور افغانستان پر امریکی افواج کب اور کیوں حملہ آور ہوئیں؟ یہاں کے رہائشی جفاکش اور محنتی ہیں جو سطح سمندر سے 4,500 میٹر بلندی پر سخت ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس نہ تو دنیا کی ٹیکنالوجی پہنچی ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات، واخی قبیلہ کے افراد کی زندگی بہت سادہ ہے۔ اس قبیلے تک پہنچنے کیلئے کوئی ذرائع آمدورفت نہیں ہیں۔ یہاں پہنچنے کیلئے تقریباً 500 سال قبل تعمیر کی گئی ایک خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی سڑک سے گزرنا پڑتا ہے۔
اب افغان حکومت نے سیاحت کے فروغ کیلئے اس علاقے پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانسیسی فوٹو گرافر نے اگست 2016ء میں دنیا سے کٹے ہوئے اس علاقے کا دورہ کیا۔ اس نے اپنے تجربات تحریر کرتے ہوئے کہا کہ واخان قبیلے کے گھر دیکھنے کے قابل ہیں۔ ان رہائش گاہوں کو مقامی زبان میں ’’چِد‘‘ کہا جاتا ہے۔ فرانسیسی فوٹو گرافر کے مطابق واخان افراد کے پاس انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ یہ دیہات بیرونی دنیا سے بالکل کٹے ہوئے ہیں۔