تحریر: علی عمران شاہین
انڈونیشیا کے صوبہ آچے کے ایک ساحل پر ان دنوں ایک عجیب بستی آباد ہے۔ یہ بستی روئے زمین کی مظلوم ترین قوم برما کے ان روہنگیا مسلمانوں کی ہے جو کتنے ہی ہفتے بوسیدہ کشتیوں میں زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے بالآخر یہاں اترنے میں کامیاب ہو پائے۔ ان سب میں سے کتنے بھوک پیاس سے تڑپ کر زندگی کی جنگ ہار گئے تو کتنوں کی کشتیاں سمندر میں غرق ہوئیں۔ اس غرقابی سے ان کی سوکھی چمڑی میں لپٹی مرمریں ہڈیاں خوفناک سمندری مخلوق کی خوراک بن گئیں جو ساحل پر اترنے میں کامیاب ہوئے، انہیں بھی آنکھیں کھولنے اور پھر چلنے پھرنے کیلئے ہوش سنبھالنے میں کتنے دن لگے تب ان کی حالت زار کا ایک مختصر قصہ دنیا کے سامنے آیا۔ اس کے بعد کہیں کسی نے برما کو لعن طعن کی (جس کی اسے کبھی کوئی پروا نہیں رہی) تو کسی نے ان مظلوموں کی مدد کیلئے دہائی دی، تو کسی نے وطن واپسی اور برما میں مستقل رہائش اور شہریت کا مطالبہ کیا جس کی حیثیت محض مطالبہ سے آگے کی نظر نہیں آتی۔
ان ہزاروں دکھیاروں کوجب مقامی مچھیروں نے دیکھا تو انہیں پہلے ساحل پر لائے پھر ان کے زخم پر مرہم رکھنے کیلئے ان کے ہمراہ مقامی لوگ میدان میں اترنے لگے۔ انڈونیشیا کی معروف رفاہی تنظیم ACT اس کام میں سب سے آگے تھی تو اس کے ساتھ ایک اور بینر بھی لہرا رہا تھا جس پر فلاح انسانیت فائونڈیشن لکھا تھا۔ جی ہاں! چند ہی دنوں میں فلاح انسانیت فائونڈیشن ہی نہیں اس کے ایک اہم ذمہ دار شاہد محمود اور ڈاکٹر احسان بھی یہاں قدم رکھ چکے تھے اور اپنے وطن پاکستان سے ہزار ہا کلومیٹر دور ان لٹے پٹے مسکینوں پر سائبان بنا رہے تھے… کھانا کھلا رہے تھے… دوا دے رہے تھے… ان پر بیتی قیامتوں کی کہانیاںسن کر ان کے دکھ درد کو کم کرنے کے لئے شب و روز ایک کر رہے تھے کہ رمضان المبارک کی گھڑیاں آن پہنچیں۔ پھر یہاں ان کے لئے سحروافطار کا اہتمام ہوا۔ رہائش گاہوں کے ساتھ مسجد کی تعمیر ہوئی تو رمضان المبارک کے اختتام پر عیدالفطر آن پہنچی… شاہد محمود پاکستان کے کتنے شہروں، کتنے علاقوں میں ان غریب الدیار لوگوں کی کہانی اپنی زبانی پہنچا کر ایک بار پھر ہوائوں اور سمندروں کو چیرتے ان کے درمیان اتر چکے تھے…
یکم شوال عیدالفطر کا دن تھا۔ سب نے نئے کپڑے زیب تن کر لئے تھے… سب عید کیلئے جمع ہو چکے تھے… انہوں نے نماز ادا کی… رب کے حضور دعا کی قبولیت کی گھڑیوں میں اپنی دلدوز کہانی کا خوب دکھڑا پیش کیا تو آنسوئوں کی جھڑیاں لگ گئیں… آہوں اور سسکیوں سے جیسے ساحل بھی کانپتا نظر آتا… پھر دعا کا اختتام ہوا تو میل ملاقات کا منظر عجیب تھا، عید کے وہ لحظے، وہ گھڑیاں جن کا انتظار ہر مسلمان بڑی شدت سے کرتا ہے کہ آج کی خوشی تو سال بعد ہی نصیب ہوتی ہے، لیکن یہاں انڈونیشیا کی سرزمین پر جہاںدن میں کئی بار بادل برستے ہیں، آج آسمان صاف تھا تو آنسوئوں کی برسات ہو رہی تھی۔ آج پہلی بار بادل نہیں، دلوں سے غم ابل اور گرج برس رہے تھے۔ سبھی شاہد محمود کے گلے لگ کر غموں کے پہاڑ کا بوجھ ہلکا کرنے کو بے تاب تھے کہ ایک ایسا مسیحا ان کے درمیان آیا تھا جسے وہ اپنا سمجھ کر، دل میں بسا کر دل کی بات سنا سکتے ہیں… یہاں حالت اس قدر دلدوز ہوئی کہ ان مظلوموں کیلئے پاکستان سے لائے گئے عید کے تحائف ہی سب کو بھول گئے اور ان کی تقسیم اگلے دن پرڈال دی گئی۔شاہد محمود یہ سارے مناظر بھی ریکارڈ کر کے ہم تک پہنچا دیتے۔
ہم یہاں بیٹھے دیکھ کر رب کا شکر بھی ادا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے واحد سرزمین پاکستان ہی کو سارے عالم میں یہ اعزاز بخشا ہے کہ اس کے بیٹے آج یہاں تک پہنچ چکے تھے۔ یہ معاملہ یہاں تک ہی نہیں فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے تو رمضان کے بعد اب عید کے موقع پر بھی غزہ کے کھنڈروں میں مقیم فلسطینیوں کے پاس بھی عید کی خوشیاں تحائف کی شکل میں پہنچائی جا رہی تھیں۔ شام کے لٹے پٹے پھولوں اور کلیوں کو بھی نئی رنگت بخشی جا رہی تھی۔ کل تک کے شہزادے اور شہزادیاں آج اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں بپا آگ و خون کے دریا پار کر کے جگہ جگہ دربدر ہوئے تو پائوں میں جوتا تک نہ تھا۔ وہ معصوم سی 4سالہ بچی تو دل سے نہیں اترتی جو ایک جھونپڑے سے ننگے پائوں نکلی، زمین پر پتھر اور سنگریزے تھے، چلنا محال تھا، دیکھتے دل دہلتا تھا کہ ننھے ننھے پائوں کیسے آگے بڑھ رہے ہوں گے۔ وہ آہستہ آہستہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی گاڑی کے پاس پہنچی۔ نیاجوتا، نئے کپڑے تھامے اور پھر واپس چل دی… ان سب کے لئے کھانے، مٹھائی اور طرح طرح کے ملبوسات و تحائف تقسیم ہو رہے تھے۔ شامی مسلمانوں کی دل سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ ابھی یہ منظر دل میںکسمسا رہے تھے کہ پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچانا شروع کر دی۔ سلسلہ بالائی علاقوں گلگت، بلتستان اور چترال سے شروع ہوا جہاں بڑے بڑے طوفانی ریلوں نے سب کچھ مٹا کر رکھ دیا۔
لوگ زندگی بچانے کی فکر میں مگن تھے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے کارکن کمر پر چاول اور کھانے کے دیگرسامان کی بوریاں رکھ کرپہاڑوں میں کود رہے تھے۔ ہرطرف بارش اور پانی اور اس حال میں آگ جلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لیکن انہوں نے یہ سب بھی کر کے دکھا دیا۔ چترال کی وادی کیلاش کے آخری کونے تک ملاکنڈ اور دیر سے ابوسیاف اور ابوہارون کی قیادت میں کتنے ہی کارکنان جاں کی بازی لگائے دن رات ایک کئے مصروف عمل تھے کہ بس رب کی رضا حاصل ہو جائے۔ جہاں راستے مٹ گئے، انہوں نے سامان اپنے کندھوں سے باندھ لیا، سر پر اٹھا لیا، دعائوں کے سہارے موت کے منہ میں جاتے راستوں کو عبور کر کے موت کے منہ سے لوگوں کو نکالنے لگے۔ سیلاب نے پینے کے پانی کا نظام کھدیڑ کر رکھ دیا تو اس کا انتظام بھی کرنے پہنچ گئے اور صاف پانی کی گاڑیاں چلا دیں۔ جو کھانا اپنے ہاں بنانا چاہئے اس کیلئے سامان خوراک اس کے کھنڈر تک پہنچا رہے تھے۔ سکردو میں ابوبدر شاہین اورمولانا شریف بلغاری اپنے دوستوں سمیت مصروف عمل تھے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف لیہ اور دیگر علاقوں میں دن رات گزارنے کے بعد چترال جا پہنچے۔ بدن پر کیسے کپڑے ہیں…؟ ہوش نہیں… جوتے کیسے ہیں؟ پروا نہیں… بال کس حال میں ہیں…؟ دیکھنے والے کو کیا محسوس ہوتا ہو گا…؟
لگتا یہی ہے کہ اس سب کا خیال بھی ان کے قریب نہیں پھٹکا۔ اپنے ہاتھوں سے سیلاب متاثرین کے منہ میں لقمے ڈال رہے ہیں۔ کشتیاں چلا رہے تھے، سیلابی پانی میں سانپوں کی کثرت ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے آگاہ اس کا سامنا کرنے والے ہی ہوتے ہیں، لیکن یہ اپنے رب کے توکل پر اپنی ذات کو پیچھے چھوڑ کر جگہ جگہ دوسروں کو بچانے کی دھن میں گردن تک سیلابی پانی میں ڈوبے کھڑے ہیں۔ کہیں فیصل آباد کے ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ اور حافظ محمد فیاض اس حال میں نظر آتے ہیںتو کہیں مظفر گڑھ کے ابوہریرہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تو کہیں ڈیرہ اسماعیل خان کے عتیق الرحمن چوہان… اپنی معذوری و بیماری کو اپنے سے کوسوں دور کئے ایک ہی دھن میں سفر کئے جا رہے ہیں۔ سنا تھا کہ انہیں عید کے بعد چھٹیاں دی گئی تھیں کہ یہ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے بعد اپنے پیاروں کے درمیان چند خوشیوں بھرے لمحات گزار لیں گے لیکن ان سب نے تووہ لمحے بھی بظاہر دوسروں لیکن حقیقت میں اپنی قوم و ملت کے بچوں کیلئے قربان کر دیئے۔
یہ کس مٹی کے لوگ ہیں…؟ ان کے دشمن چاردانگ عالم پھیلے ، اژدہوں کی مانند نگلنے کیلئے بے تاب ہیں لیکن بات نہیں بن پا رہی کہ ان پر تو ان کے اس رب کا سایہ ہے جس کے حکم پر یہ سب یوں دن رات ایک ہی دھن میں غرق بیٹھے ہیں کہ ہر انسان کی جان بچالی جائے۔ ان سب کو دیکھ کر آنکھوں کے سامنے سیرت نبویۖ کا وہ باب جھلملانے لگتا ہے کہ پیارے نبی کریمۖ پہلی وحی کے بعد گھر تشریف لاتے ہیں تو جسم پسینے سے شرابور ہے… ام المومنین خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کیفیت بھانپ لیتی ہیں۔ آپ چادر منگوا کر اوڑھ لیتے ہیں تو ام المومنین تسلی و تشفی دیتے ہوئے فرمانے لگتی ہیں کہ آپ توکمزوروں کا سہارا ہیں، مسکینوں کے والی ہیں… بے کسوں کا ہاتھ تھامنے والے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رب ذوالجلال ضرور آپ کو سرخرو کرے گا… اور پھر … عالم گواہ ہے کہ اس شمع سے پھوٹنے والی روشنی کوکوئی گل تو کیا، کم بھی نہ کر سکا… بے سہاروںکا سہارا بننے والوں کا پروردگار خودسہارا اور سائباں بن جاتا ہے توپھرکسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی…
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ(0321-4646375)