تحریر : لقمان اسد
اپنے عہدے سے مستٰعفی ہونے کے بعد چوہدری سرور نے یوں تو ہر اُس غم کا رونا رویا اور ہر اُس عذاب کا ذکر کیا جو گزشتہ نصف صدی سے پاکستان میں عام طبقہ کا مقدر ہے لیکن سب سے بڑا جو سچ اُنہوں نے بولا وہ یہ تھا کہ اس ملک میں” سچ کا قحط” ہے چوہدری صاحب ! آپ کیسے پاکستانی ہیں جو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ایک برس بھی نہیں گزار سکے حالانکہ تمہارے پاس ملک کا ایک اہم عہدہ اور ملک کے ایک بڑے صوبے کی گورنری جیسا منصب بھی تھا اس کے باوجود بھی کہ رہنے کو ایک بہت بڑا گھر اور سرکاری پروٹوکول بھی دستیاب تھا آپ پھر بھی دل ہار گئے۔
پاکستان میں انصاف کے نظام پر آپ طعنہ زن ہوئے ، قومی اور حکومتی پالیسیوں پر آپ نے بے جا تنقید شروع کر دی اور حیرت ہے قبضہ گروپ آپ سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے مجھے آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق تو ہے مگر میں آپ کے اس طرز عمل پر حیران ہوں آپ کو بھی چاہیئے تھا کسی قبضہ گروپ پر ہاتھ رکھتے اور پھر دیکھتے کیسے قلیل ترین عرصہ میں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آپ کے کئی کنالوں پر مشتمل پلازے اور بنگلے تعمیر ہوتے ،آپ بھی کسی دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرتے اور کبھی میڈیا پر آکر تو کبھی در پردہ دہشت گردوں کی حمایت کے جذبہ سے سرشار رہتے تب آپ کو اندازہ ہوتا کیسے یہاں کا قانون طاقتور کا محافظ بنتا ہے تب آپ کو سب کچھ خوبصورت معلوم ہوتا اور ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا۔
سوجھتا چوہدری صاحب آپ نے خواہ مخواہ گورنری کا منصب ترک کر دیا یہاں تو بڑے بڑے انقلابی اور عوام کے درد کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ایسے عہدوں کی تلاش میں دن رات سرگرداں رہتے ہیں آپ نے خواہ مخواہ ہی عوام کی محبت کو اپنے دل میں سمو لیا آپ دیکھتے نہیں ہو صحرائے تھر میں ایک سو سے زائد بچوں کی محض بھوک کی وجہ سے ہلاکتوں کے باوجود بھی سندھ حکومت کتنی کامیابی سے چل رہی ہے اور اس گڈ گورننس کے پیچھے سیاست میں پی ایچ ڈی کرنے والے قابل ترین ڈاکٹروں اور ایماندار بیورو کریسی کا ہاتھ ہے اس لئے تو تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا گناہ اُن کے سر نہیں تھونپا جا سکا۔
کسی ایک بھی وزیر نے استعفیٰ دیکر اس جانی نقصان کی ذمہ داری کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی ایک بیورو کریٹ کی معطلی عمل میں آئی اسی طرح سانحہ پشاور جیسے عظیم انسانی اور قومی المیہ کے بعد بھی آپ دیکھیں کس طرح وہاں کی حکومت مستعدی کے ساتھ دن رات عوامی مسائل حل کرنے میں مگن ہے جبکہ سانحہ پشاور کے پیش آنے پر آج تک حکومت نے کسی آئی جی اور ڈی آئی جی سے جواب طلبی تو کیا پوچھا تک نہیں سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داران آج تک حکومتی عہدے انجوائے کر رہے ہیں کئی حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا منظر بھی آپ کے سامنے ہے چوہدری صاحب !یہاں ہمیں ہر سہولت دستیاب ہے کھانے پینے کی سب اشیاء میں زہر ملایا جارہا ہے اور ان دو نمبر اشیاء بنانے والے افراد قانون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دندناتے پھر رہے ہیں آپ بھی باکمال آدمی ہیں صاف پینے کے پانی کی عدم دستیابی پر نوحہ کناں ہیں چوہدری صاحب ! ہم وہ بھیڑوں کا ریوڑ ہیں جنہیں صاف پینے کے پانی سے لیکر سستے اور فوری انصاف کی فراہمی تک سب کچھ میسر ہے۔
پولیس کے چاک و چوبند دستے یہاں ہر وقت ہر لمحہ عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت کیلئے بغیر رشوت کا کاروبار کئے اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں ، کھانے پینے کی تمام اشیاء یہاں ہمیں انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں اور ہیں بھی قطعی خالص اور حلال چوہدری صاحب ! آپ نے گورنری کا منصب چھوڑ کر بہت جلدی کی ،آپ نے بغیر کسی وجہ کے اپنے دوستوں کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرا دیا جبکہ آپ کے دوستوں کو آپ سے یہ توقع ہر گز نہ تھی وہ تو عوام کی فلاح کیلئے آپ کو اپنے شانہ بشانہ دیکھنا چاہتے تھے آپ ہی نے اُن سے منہ موڑ لیا آپ نے یہ عہدہ چھوڑ کر ایسے ہی تکلف کیا وگرنہ آپ اپنے ہم منصب سندھ کے گورنر عشرت العباد کا ریکارڈ باآسانی توڑ سکتے تھے نہ بھی توڑ سکتے کم از کم برابر تو کر دیتے چوہدری صاحب !آپ کا دل تو دُکھا ہی دُکھا آپ نے اپنے چاہنے والوں کا دل بھی دُکھا دیا آپ کچھ برس اور دل گردہ بڑا کرتے مال بناتے دو نمبر کاروبار کرتے۔
غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے اپنی من مرضی کے تھانیداروں کا تقرر تھانوں پر کراتے پھر دیکھتے آپ کے بخت کیسے جاگتے اور اس کے بعد مقہور عوام کے مسائل کے حل اور ملک میں انقلاب برپا کرنے کیلئے ایک منفرد نام والی اپنی سیاسی جامعت کے قیام کا اعلان کرتے چوہدری صاحب ! اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے پھر کبھی پاکستان لوٹ کر آنا تو سچ نہ بولنے کی قسم اُٹھا کر آنا اور اپنے زندہ ضمیر کو بھی یورپ کے کسی کواڑ خانے میں پھینک کر آنا تب آپ بھی شوکت عزیز کی طرح سیاسی خانوادوں میں ہر دل عزیز اور بلند مرتبت ٹھہرو گے ،تب آپ بھی اس ملک کے وزیر اعظم بن جائو گے اور ایک کامیاب ترین سیاست دان بھی پھر آپ کو یہان عوام کی کسی محرومی پر رونا رونے اور طعنہ زن ہونے کی ضرورت کبھی در پیش نہ آئے گی اور نہ ہی یہ جملہ کبھی دہرانا پڑے گا کہ ”پاکستان میں سچ کا قحط ہے۔
تحریر : لقمان اسد