تحریر : لقمان اسد
حکومتی احکامات کے پیش نظر وہ طیارہ جس میں ڈاکٹر طاہر القادری سوار تھے اب اسلام آباد کی بجائے لاہور ایئر پورٹ پہنچ گیا جب کہ حکومت کے اس انوکھے اقدام کو دیکھ کر ڈاکٹر طاہر القادری نے طیارے سے اُتر کر باہر آنے سے انکار کردیا تب حکومت کو گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی ضرورت پڑھی اور چوہدری سرور نے ایئرپورٹ آکر ڈاکٹر طاہر القادری کو طیارہ سے اُتر کر گھر جانے پر رضامند کرلیا گورنر کی گاڑی میں بیٹھ کر ڈاکٹر طاہر القادری سب سے پہلے لاہور کے جناح ہسپتال پہنچے وہاں پر اپنے زخمی کارکنان کی عیادت کی اور عیادت کرنے کے بعد وہ ماڈل ٹائون اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوگئے
ان سب واقعات کو چوہدری سرور ایک محب وطن پاکستانی اور بطور گورنر پنجاب انتہائی قریب سے ملاحظہ کرتے اور دیکھتے رہے وہ برطانیہ میں 1997سے لیکر 2010تک مسلسل برٹش پارلیمنٹ کے ممبر رہے جبکہ وہ پہلی مسلمان شخصیت ہیں جنہیں ہائوس آف کامنز کا رکن منتخب ہونے کا اس لحاظ سے یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے چوہدری سرور غالباً 30برس یا اس سے بھی زائد کچھ عرصہ برطانیہ گزار آئے، وہاں برٹش پارلیمنٹ کے ممبر اور ہائوس آف کامنز کے رکن رہے
لیکن جب وہ پاکستان آئے اور عملی طور پر اپنے ملک کی سیاست اور حکومت کا حصہ بنے تب انہیں وطن عزیز میں حکمرانوں کے عجیب طور اور اطوار اور انوکھے طرز کے رویو کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا شرف حاصل ہوا تو وہ اس پر حیران و پریشان ہوئے بغیر نہ رہ سکے انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا کہ الیکشن 2013میں اگر دھاندلی ہوئی ہے تو اس حوالے سے شفاف تحقیقات حکومت کو کرانی چاہیے
اب امریکی صدر باراک اوباما کے حالیہ دورہ بھارت کے حوالے سے بھی انہوں نے یہ کہا کہ امریکی صدر نے ہندوستان کا دورہ کیا لیکن پاکستان وہ نہیں آئے اس کا مطلب چوہدری سرور نے یُوں بیان کیا اور حکومتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا یہ پاکستان کی سفارتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے یہ سب کچھ بھی ان کی زبانی سن کر ان کے قریبی رفقائوں کو بہت ناگوار گزرا چوہدری سرور کو یہ علم نہ تھا کہ پاکستان میں ملک اور قوم کے حقوق اور ملک اور قوم کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر حکومتی نمائندے گفتگواور اخباری بیان جاری کیا کرتے ہیں چوہدری سرور کی سیاسی تربیت یورپ میں ہوئی تھی اور انہوں نے وہاں کے حکومتی نمائندوں کی حب الوطنی سے یہ اندازہ لگارکھا تھا کہ پاکستان کے حکمران اور سیاستدان بھی انہی یورپی سیاستدانوں کی طرح دن رات ملک وقوم کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں چوہدری سرور نے پاکستان میں رہ کر تھر میں بھوک کے سبب موت کے منہ میں جاتے معصوم بچوں کو دیکھا،
سرگودھا کے ایک ہسپتال میں 2درجن کے قریب بچوں کو مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لُقمہ اَجل بنتے دیکھا،انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ وطن کے چپہ، چپہ میں کس طرح دہشت گرد بے گناہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے حکومتی صفوں میں پورے دھڑلے اور زور کے ساتھ ان کی حمایت پر ہروقت آمادہ اور کمربستہ نظر آتے ہیں، انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ یہاں سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا کردار ٹاٹ،دریاں بچھانے اور نعرے لگانے تک ہی محض مختص اور محدود ہیں اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ سانحہ پشاور کے بعد کُل جماعتی کانفرنس میں کس طرح ہمارے سیاسی قائدین ایک دوسرے پر جُگت بازی اور مزاحیہ فِقرے کس رہے تھے۔
چوہدری سرور کو پاکستان میں صرف ایک یاڈیڑھ برس میں وہ سیاسی تجربات حاصل ہوئے جو انہیں اپنی 34سالہ برطانوی یا یورپی زندگی میں میسر نہ آسکے جبکہ یہ بات بھی پورے دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر وہ بقیہ تمام عمر بھی یورپ کی سیاست اور معاشرت میں بسر کردیتے تب بھی انہیں وہاں اس قسم کے دیرینہ تجربات کبھی حاصل نہ پاتے۔
تحریر : لقمان اسد