تحریر: شیخ توصیف حسین
دنیا میں گھوڑوں کی ہزاروں اقسام ہیں اور ہر ملک کے گھوڑوں کی اپنی عادات قدو قامت پھرتی عقلمندی وفاداری مہارت اور رفتار کی بناء پر قدروقیمت اور پہچان ہے گاڑیوں جہازوں ٹینکوں کے دور سے قبل جنگی دنیا میں گھوڑے کو ایک بہت ہی اہم مقام رہا ہے دنیا کے اکثر بادشاہوں جن کے نام تاریخ میں درج ہیں انہوں نے اپنی آ دھی سے زیادہ زندگی گھوڑوں کے پیٹھ پر ہی گزار دی شہواری مردانگی اور بہادری کی علامت تھی اور پھر گھوڑے کی ہنر مندی اور تربیت تو اُسے سونے سے بھی مہنگا کر دیتی ہے عربی گھوڑے دنیا میں اپنی اہمیت چستی اور برق رفتاری کی وجہ سے قیمتی مانے جاتے ہیں اور جو وفا کے لحاظ سے اپنی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں جن کی پیٹھ پر بیٹھ کر عربوں نے پوری دنیا پر اپنی بہادری اور شجاعت کی دھاک بٹھا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھی سے زیادہ دنیا کو اپنے زیر کمان کر لیا جس میں عربی گھوڑے کا بڑا اہم رول تھا جو ہر جنگ کا اہم رکن تھا عربوں نے صرف جنگی میدانوں میں ہی نہیں بلکہ معاشیات حساب علم فلکیات و دیگر علوم میں بھی ایسے ایسے نظریات پیش کیئے اور ایسے فلسفے بتائے کہ دنیا مرعوب ہو کر رہ گئی یہاں کسی شاعر نے کیا خوب کہاں ہے۔
کہ دشت تو دشت رہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
جب صلاح الدین ایوبی نے 1137 یا 1193 میں رچسٹرڈ کو آ خری شکست سے ہمکنار کیا تو رچسٹرڈ نے کیا تاریخی ڈائیلاگ بو لا او کے جینٹلمین آپ سے ایک ہزار سال بعد بات ہو گی مسلمان قوم تو رچسٹرڈ کے اس چیلنج کو بھول گئی لیکن دوسری طرف رچسٹرڈ کے پیرو کاروں نے ان کے اس چیلنج کو پورا کرنے کیلئے خوب محنت کی علم و فن میں تحقیق اور سامان حرب کے نتیجہ میں آج وہ اس مقام پر آ گئے ہیں کہ وہ دنیا بھر کو اپنا غلام بنانے کیلئے گھنائونی سازش کے ساتھ ساتھ اپنے دشمنوں کو کمزور کر نے اور انھیں اپنی راہ سے ہٹانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر نے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں عرب ظہور اسلام سے قبل جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے بیٹیوں کو زندہ درگور کر نا جھوٹ بولنا جوا کھیلنا دھو کہ دینا اور بتوں کی پرستش کر نا بھی ان کے خون میں شامل تھی قصہ مختصر کہ دنیا جہاں کی برائیاں عرب کی دھر تی پر ہی جنم لیتی تھیں جس کیلئے خداوند کریم نے عرب قوم کو راہ راست پر لانے کیلئے تمام پیغمبر عرب دھرتی پر اتارے جو عرب قوم کو عذاب الہی سے ڈراتے رہے جن میں سے بعض عرب مسلمان عذاب الہی سے ڈر کر راہ راست پر آ گئے۔
جبکہ بعض اپنی سابقہ سوچ کے مطا بق جوں کے توں رہے زیادہ تر عربی مسلمان ہندوستان جیسے ملکوں سے سوکھی روٹیاں لا کر عربستان فروخت کرتے یہ کاروبار خوب چمکا اور وہ مکمل طور پر بدو ہو گئے جن کے پاس نہ عقل نہ علم نہ سوچ اور نہ ہی سمجھ اس دوران خداوندکریم کی رحمت نے پھر جوش مارا اور عرب میں تیل نکل آ یا جس کے نتیجہ میں عربی مسلمانوں کے وارے نیارے ہو گئے عربی مسلمان تیل کی آمدن کا چو تھا حصہ جو کہ کھر بوں روپے بنتا تھا لیکر خوش تھے جسے وہ یورپین اور امریکی بنکوں میں بغیر کسی منافع کے جمع کروا دیتے اس دوران مسلمان رچسٹرڈ کا دیا ہوا چیلنج بھول چکے تھے لیکن رچسٹرڈ کے پیروکاروں کو یہ چیلنج یاد تھا اسی لیئے انہوں نے عرب شہزادوں کو ایک اور راہ دکھائی وہ تھی عیاشی کی جس کے نتیجہ میں عرب شہزادوں نے بڑے بڑے محل بنوائے جن میں پانچ پانچ سو خوبرو دو شیزاہوں کو رکھا انہوں نے وہ سب کچھ کیا جس کی مذہب اسلام ہر گز ہر گز اجازت نہیں دیتا افسوس صد افسوس کہ عرب شہزادوں نے مسلم دنیا کیلئے نہ تو کوئی ساہنی یو نیورسٹی بنائی اور نہ ہی میڈیکل یو نیورسٹیاں بنوائی اور نہ ہی تحقیق اور نئی ایجادات میں کسی مسلم دنیا کی معاونت کی کاش عربی شہزادے غیر مسلم ممالکوں سے اپنے ڈیپازٹ کا صرف منا فع لیکر اسلامی مما لک کی عوام کی فلاح پر خرچ کر دیتے تو آج نہ تو کسی مسلمان کا کچا مکان ہوتا اور نہ ہی کوئی مسلمان ان پڑھ ہو تا اور ایسی ایجادات سامنے آ تی کہ جن کو دیکھ کر غیر مسلم ممالک حیران و پریشان ہو جاتے۔
لیکن افسوس کہ اس کے بر عکس آج سارے عرب کی جیلیں پاکستانیوں سے بھری پڑی ہیں آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ غیر مسلم ممالک تیل کی آ مدن کا چو تھا حصہ جو ان شہزادوں کو ملتا ہے وہ بھی برداشت نہیں کر پا رہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب یہ شیخ صاحبان یورپ میں آ رام کر نے جاتے ہیں تو ان کا ایک ہفتے کا خرچہ سینکڑوں ملین ڈالر سے اوپر ہوتا ہے یہی کافی نہیں ایران کویت عراق اور افغانستان میں جنگ مسلط کروائی گئی اس کا خرچہ بھی غیر مسلم ممالکوں نے سود سمیت وصول کیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لا تعداد عر بی با شندے دور دراز کے ملکوں میں عیاشی کرنے کے ساتھ ساتھ معصوم پرندوں کے قتل عام پر تو اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن مسلم ممالکوں کی بیٹیوں جو جہیز کے نہ ہو نے کے سبب اپنے غریب والدین کے در پر ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں پر کچھ خرچ نہیں کرتے اور نہ ہی ان یتیم بچوں پر خرچ کرتے ہیں جو علم جیسے زیور سے آ راستہ ہونے کے بجائے اپنے معصوم بہن بھائیوں کی کفا لت کیلئے ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں دن رات مزدوری کر رہے ہیں۔
اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو عربیوں کے جراثیم آج ہمارے ملک کے حا کمین کے دل و دماغ میں سما گئے ہیں یہ بھی ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے لندن دوبئی کے علاوہ نجانے کن کن ملکوں میں اپنے اپنے محل تعمیر کروانے کے ساتھ ساتھ یورپین اور امریکہ جیسے ملکوں کے بنکوں میں کھر بوں روپے جمع کروانے میں مصروف عمل ہیں بعد ازاں وہی کھر بوں روپے ہم قرض کی صورت میں واپس لیتے ہیں اور سود سمیت واپس کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں آج اس ملک کا بچہ بچہ غیر ملکیوں کا مقروض بن کر رہ گیا ہے جبکہ یہی حالت ہمارے ملک کی انتظامیہ کی ہے جن کی فرض شناسی کا یہ عالم ہے کہ آج ملک بھر کے تمام ادارے کرپشن کی آجگاہ بن کر رہ گئے ہیں جبکہ لوٹ مار جلائو گھیرائو منشیات فروشی فحاشی جیسا مکروہ دھندے کے علاوہ چوری ڈکیتی راہزنی اور قتل جیسی سنگین وارداتیں روزانہ کا معمول بن چکی ہیں اور بے روز گاری کا یہ عالم ہے کہ بے روز گار افراد دو وقت کی روٹی کے حصول کی خا طر اپنے گردے اور معصوم بچوں کو فروخت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس ملک کے محا فظ تھانوں میں پڑی ہوئی کرسیوں کو محض اس لیئے زنجیروں سے جکڑ کر رکھے کہ کہیں ان کے پیٹی بند بھائی ان کرسیوں کو چوری نہ کر لیں تو آپ از خود اندازہ کر لیں کہ یہ محا فظ قوم کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ان محا فظوں کے گھنائو نے اقدام کے نتیجہ میں ملک بھر کی پانی کی سبیلوں کے گلاسوں کو زنجیروں سے جکڑ دیا گیا ہے تاکہ انھیں قانون شکن عناصر جو کھلے عام گھوم رہے ہیں چوری نہ کر لیں
تحریر: شیخ توصیف حسین