تحریر: میر افسر امان
ایک سیدھا سادہ سا مسلمان ہونے کے ناتے،ا کشر پاکستانی ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز کو اپنے کالموں کے ذریعہ یاد کرواتا رہتاہوں کہ وہ اپنی تہذیب، معاشرت اور ثقافت کا خیال رکھیں اور مغربی معاشرت اور ثقافت کی اندھا دھند نکالی نہ کریں۔ اگر صرف خواتین ہی کی بات کی جائے تو مسلم معاشرے میں خواتین کا ایک مہذب مقام ہے۔ مسلمان خاتون ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہے۔ مسلم معاشرہ اور ثقافت عورت کو اسی مقام میں دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی اور اینکرز پرسن خواتین سر پر اسکارف کے بغیر اور غیرضروری میک اپ کے ساتھ ایسی لگتی ہیں جیسے کسی مغربی ملک میں مقابلہ حسن میں شریک ہیں۔ مسلم معاشرے کی اپنی تاریخ، معاشرت اور ثقافت ہے جس کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ٹی وی پر خواتین کو اس حالت میں دیکھ کر ہمارا دل کڑتا رہتا ہے۔
ایک بڑے میڈیا گروپ جو امن کی آشا پروگرام کی وجہ سے پاکستانی عوام میں بدنام ہوا تھاکے ٹی وی ایک پروگرام عالم آن لین میں ایک خود ساختہ عالم کے ایسے پرگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، جن کو بیزاری سے عوام نے جاہل آن لین کا نام دیا ہوا ہے۔ اس صاحب نے ٹی وی پر مہذب کو مذاق بنا لیا ہے مہذب کے نام پر بیہودہ حرکتیں کرنا اس کا شیوا تھا۔صبح کے پروگراموں موسیقی اور پھر رمضان شریف کے باوقار مہینے کے اندر پروگرام میں بے ہودہ قسم کی باتیں، انعام کی لالچ میں لوگوں کی بے معنی اُچھل کود کو عام کیا گیا۔ ان کو دیکھا دیکھی پھر دوسرے ٹی وی چینلز نے نقل کرنا شروع کیا۔ دیکھا گیا ہے کہ تمام ٹی چینلز میں ایسے پروگرام نشر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ہمارے ٹی وی کیبلز آپریٹر کا اُس نے میرے کیبل کی لسٹ میں کچھ تبدیلی کی اور پہلی دفعہ سچ ٹی وی میری لسٹ میں پہلے نمبر پر آیا۔ جب بھی ٹی وی کے ریموٹ سے بٹن آن کرتا ہوں سچ ٹی وی سامنے آ جاتا ہے۔
آپ یقین جانیں اس سے قبل ہمیں سچ ٹی وی کے متعلق کچھ بھی پتہ نہیں تھا کہ کس کا ہے کب آن لین ہوا ہے کیسے پروگرام پیش کرتا ہے وغیرہ۔ نہ ہی ہمیں آج تک یہ پتہ ہے کہ سچ ٹی وی کس گروپ کا ہے۔ہمیں سچ ٹی وی کی نشریات دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سچ ٹی وی کی خبریں پڑھنے والے خواتین کے سر پر دوپٹہ نظر آیا۔میرے دل میں خیال اُٹھا کی یہ ٹی وی مناسب لگتا ہے۔ اس میں اپنی تہذیب ،معاشرت اور ثقافت کا لحاظ ہے۔ تجسس کے طور پر اور مذید معلومات کے لیے میں نے سچ ٹی وی کو اس کی ویب پر بھی دیکھا اور سچ سویرا پروگرام کی چند سائٹز کھول کر دیکھیں۔ اسے دیکھ کر مذید خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان سائٹز پر بھی پروگرام کرنے والی خاتون سر پر دوپٹہ اُڑھے ہوئے ہے۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ سچ ٹی وی فیملی کے ساتھ پیٹھ کر دیکھنے میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کرے سچ ٹی وی کے دوسرے پروگراموں میں بھی اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور معاشرت کا خیال رکھا جاتا ہو۔
پاکستانی ٹی وی چینلزپر جب یہ دیکھتا ہوں کی ہمارے برادر ملک ترکی کی خاتون اول جب پاکستان کے دورے پر آئی تھی تو سر پر اسکارف اڑھے ہوئی تھی جبکہ ہماری ملک مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خاتون اوّل کے سر دوپٹہ نظر نہیں آیاتھا۔ دوسری طرف مغرب اور امریکا میں رہنے والی مسلمان خواتین سر پر اسکارف رکھتیں ہیں۔ اسکارف پہننے کی وجہ سے نوکریوں سے نکال دی جاتیں اور مغربی معاشرے میں روز مرہ کی زندگی میں ان پر آوازیں کسی جاتی ہیں۔ مغرب میں اسکارف پہننے پر تعلیمی اداروں میں داخلہ تک نہیں ملتا۔ دوسری طرف مسلم دشمنی میں کچھ مغربی حکومتوں نے اسکارف پہننے پر آئینی پابندی لگائی ہوئی ہے۔
دیار غیر میں تو مسلم خواتین اپنی معاشرت اور ثقافت کو بچانے کی کو ششیں کر رہی ہیں ۔ مگر مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی خاتون اوّل اپنے سر پر دوپٹہ اُوڑھنے کو آر سمجھتی ہے۔ مغرب کی نکالی میں کچھ مسلمان مملکتیں بھی اسلام کے معاشرتی نظام سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ آج کل تو ٹی وی چینلز کی نشریات ساری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سچ نجی ٹی وی کی نشریات اگر مغربی ممالک میں ان کے کیبل آپریٹر، کبھی اسکارف اُوڑھنے والی مسلم خواتین پروگرامرز کو دکھائے تو ان کے دلوں کو تقویت نہیں پہنچے گی بلکہ یقیناً پہنچے گی۔بظاہر تو یہ معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر مسلم دشمن ممالک نے تو اسے بڑی اہمیت دی ہے اور اپنے معاشرے میں اسکارف پہننے پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ ایسے موقعہ پر سچ ٹی وی کا یہ عمل ہمارے نزدیک ایک بہت ہی بڑا جہاد ہے۔
ہمارا گمان ہے کہ اپنی معاشرت اور ثقافت سے محبت رکھنے والی پاکستان کی عظیم اکثریت ضرور سچ ٹی وی کی نشریات کو پسند کرے گی ۔اپنی معاشرت اور ثقافت کی پاسداری نہ کرنے والے دیگر ٹی وی چینلز کے بجائے سچ ٹی وی کی نشریات دیکھنا پسند کرے گئی۔ اس سے سچ ٹی وی کی ریٹنگ بڑھے گی۔میں پاکستانی معاشرے کے اُن حلقوں ،جو کاروبار سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی معاشرت اور ثقافت سے محبت کرتے ہیں، اور اپنے پروڈکٹ کو فروخت کرنے کے لیے ٹی وی چینلز پر ایڈورٹائزمنٹ کے لیے اشتہار دیتے ہیں ان کو ترجہی طور پر اشتہار سچ ٹی وی کودینا چاہے تاکہ اس کے اخراجات بہ آسانی سے پورے ہوں اور وہ اپنے اس نیک کام کو مذید وسعت دے سکے۔ صاحبو!ہم نے سچ دیکھا اسے سنا اور اسے اپنانے کا عہد بھی کرلیا۔ص جب ہم اس جہاد میں اپنی معاشرت اور ثقافت کی حفاظت کے لیے شریک ہو کر یہ قربانی دیں گے تو امکانات ہیں کہ دوسرے پاکستانی ٹی وی چینلز بھی اپنی بے حیائی کی روش بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح نیکی پھیلے اور بدی رکے گی۔ویسے بھی امر بلمعروف اور نہی عن المکر پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جس مغربی تہذیب و ثقافت پر مسلمان خواتین عمل کرتیں ہیں تو اس نے تو عورت سے اس کا حیاء چھین لیا ہے۔
عورت کو گھر کی ملکہ کے بجائے اسے شمع محفل بنا دیا ہے۔ وہ عورت جو ماں کے روپ میں مسلم معاشرے میں جنت کے حصول کا ذریعہ بنتی تھی اس کو مغرب نے بڑھاپے میں گھر میںرکھ کر خدمت کرنے کے بجائے اولڈ ہائوسز میں رکھ کر اس سے روحانیت اور سکون تک چھین لیا گیا ہے۔ سال بھر بوڑھے ماں باپ اولڈہائوسس میں اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں اور جب سال بعد کوئی بچہ ایک گل دستہ لا کر پانچ دس منٹ کی ملاقات کے بعد واپس چلا جاتا ہے تو بوڑھے ماں باپ کی آنکھیں پھر سال بھر اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیے ترستے رہتی ہیں۔یہ عورت کے ساتھ ظلم نہیں تو کیا ہے؟ مغرب کی عورت بر ملا کہتی ہے کہ وہ بچے کو جنم نہیں دے گی اسطرح اس کی کلب لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔ دن بھر کارخانوں میں کام کے بعد رات کو ڈائنس کلب میں جانا ہو تا ہے۔مغربی معاشرے میں جب لڑکی سولہ سال کی ہوتی ہے تو والدین اُسے کہتے ہیں جائو اور روزی خود کمائو۔
ماں باپ اور خاندان کے ساتھ بیٹھی ہوئے نوجوان لڑکی کا جب بوائے فرینڈ آتا ہے تو بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماں باپ سے یہ کہتے ہو ئے کہ او کے مام ڈیڈ میںاپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ انجائے کرنے جا رہی ہوں۔ اس طرح مغرب میں سیکسی معاشرے نے جنم لیا اور آج ان ہی کے سروے کے مطابق ان کے معاشرے میں چالیس فی صد حرامی بچے پیدا ہو رہے ہیں۔مغرب کا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے۔ بجائے کہ مسلم معاشرہ چاہیے کہ ان سے سبق حاصل کرے اوران کی نکالی نہ کرے ورنہ مسلم معاشرہ بھی تباہ ہو جائے گا۔ عوام بے حیائی سے بچنے کے لیے سچ ٹی وی جیسے جینلز کی نشریات دیکھنی چاہییں۔ اللہ مسلمان معاشرے کا نگہبان ہو آمین۔
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمست کونسل آف پاکستان