لاہور (ویب ڈیسک) جسم فروشی کی وبا پوری دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ دنیا کی آسائشات کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرنے کی ہوس اور محنت کیے بغیر رقم حاصل کرنے کا رجحان جسم فروشی کی سب سے بڑی وجہ بن رہا ہے
انتہائی پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ جسم فروشی کی وبا خواتین کے بعد مردوں میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے ، اس حوالے سے بی بی سی پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے ، یہ رپورٹ یہاں من و عن پیش کی جا رہی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے کہ تم کہاں کھڑے ہو؟ یہاں جسم کا بازار لگتا ہے۔ میں، یعنی ایک مرد، نیلے گلابی بلب والے اس قحبہ خانے میں اپنا سودا کرنے کے لیے کھڑا تھا۔ میں نے جواب دیا: ‘ہاں پتہ ہے، لیکن میں پیسے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔’ میرے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی عورت۔۔۔ نہیں خواجہ سرا تھا۔ پہلے پہل اسے دیکھا تو ڈر گیا کہ یہ کون ہے۔ اس نے کہا ‘بہت نخرہ ہے تجھ میں، لیکن یہاں نہیں چلے گا۔’ ایک آئی ٹی کمپنی میں نو دس گھنٹے کام کرنے والا میں اس وقت قدرے سے سہما ہوا تھا۔ یہ احساس ہو رہا تھا کہ میرا ضمیر دم توڑ رہا ہے۔ میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جہاں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں ایسا کروں گا۔ لیکن میری ضروریات نے مجھے اس طرف دھکیل دیا۔ میں نے پوچھا: ‘مجھے کب تک یہاں رکنا ہوگا کیونکہ کل مجھے دفتر جانا ہے۔’
اس نے کہا: ‘جا اور جا کر دفتر ہی دیکھ۔ یہاں کیا کر رہا ہے، پھر؟’ یہ سن کر میں خاموش ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس بازار کے لیے میں ‘ایک نیا مال، ایک نیا چیلا’ تھا۔ اس نے اچانک نرمی سے کہا: ‘تمہاری تصویر بھیجنی ہوگی۔ نہیں بھیجی تو کوئی بھی بات نہیں کرے گا۔’ یہ سنتے ہی میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ میری تصویر عام ہونے والی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر کسی رشتہ دار نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟ میری تصویر سامنے سے، پھر دائیں طرف اور پھر بائیں جانب سے لی گئی۔ اس کے علاوہ دو پرکشش تصاویر بھی طلب کی گئيں۔ میرے سامنے ہی وہ تمام تصاویر واٹس ایپ پر کسی کو بھیجی گئيں۔ اس کے ساتھ یہ لکھا گیا: ‘نیا مال ہے، قیمت زیادہ لگے گی۔ کم قیمت کا چاہیے تو دوسرے کو روانہ کر دوں گی۔’ میری بولی لگ رہی تھی جو بالآخر پانچ ہزار میں طے ہوئی۔ اس کے عوض مجھے گاہک کے لیے سب کچھ کرنا تھا۔ یہ کوئی فلم نہیں تھی بلکہ میرے ساتھ اصل میں ہو رہا تھا۔ یہ سب بہت عجیب تھا۔ میں زندگی میں پہلی بار ایسا کرنے جا رہا تھا۔ محبت اور جذبات سے عاری۔ ایک انجان کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کا سوچ کر میرا سر چکرانے لگا۔
پیلے رنگ کی ٹیکسی میں بیٹھ کر میں اسی دن کولکتہ کے ایک پوش علاقے کے ایک گھر میں داخل ہوا۔ گھر میں ایک بڑا سا فرج تھا جہاں شراب کی بوتلیں بھری ہوئی تھیں۔ گھر میں ایک بڑا ٹی وی بھی تھا۔ وہ شاید 32-34 سال کی شادی شدہ خاتون تھی۔ باتیں شروع ہوئیں تو اس نے کہا: ‘میں غلط جگہ پھنس گئی۔ میرا شوہر ہم جنس پرست نکلا۔ امریکہ میں رہتا ہے۔ طلاق نہیں دے سکتی۔ طلاق شدہ عورت سے کون شادی کرے گا؟ میری بھی خواہشیں ہیں۔ بتاؤ میں کیا کروں؟’ ہم دونوں نے شراب پی۔ اس نے ہندی گیت پر ڈانس کرنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں ڈائننگ روم سے بیڈ روم تک پہنچے۔ اب تک اس نے مجھ سے لگاؤ سے بات کی تھی۔ جیسے ہی کام ختم ہوا پیسے دیتے ہوئے بولی: ‘چل کٹ لے، نکل یہاں سے۔’ اس نے مجھے ٹپ بھی دی۔ میں نے اس سے کہا؛ ‘میں یہ سب پیسوں کے لیے مجبوری سے کر رہا ہوں۔’ اس نے کہا: ‘تیری مجبوری کو تیرا شوق بنا دوں گی۔’ میری مجبوری تو کولکتہ سے سینکڑوں کلومیٹر دور میرے گھر سے شروع ہوتی تھی۔ میرا تعلق نچلے طبقے کے اوسط خاندان سے تھا۔ میں گھر میں منحوس تصور کیا جاتا تھا کیونکہ میری پیدائش کے ساتھ ہی میرے والد کی ملازمت چلی گئی تھی۔
وقت کے ساتھ یہ فاصلہ بڑھتا گیا۔ میرا خواب ایم بی اے کرنا تھا لیکن انجینیئرنگ کا کورس کرنے پر مجبور کیا گیا اور ملازمت کولکتہ میں ملی۔ دفتر میں سب بنگالی بولتے۔ زبان اور دفتری سیاست کی وجہ سے میں پریشان رہنے لگا۔ شکایت بھی کی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ باتھ روم میں جا کر روتا تو کارڈ کے ان اور آؤٹ کا وقت نوٹ کر کے کہا جاتا کہ ‘یہ سیٹ پر نہیں رہتا۔’ میری خود اعتمادی کم ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ ڈپریشن نے مجھے گھیر لیا۔ ڈاکٹر سے بھی ملا لیکن مشکلات ختم نہ ہوئیں۔ ذمہ داریوں اور مصیبتوں کا بوجھ اتنا بھاری لگنے لگا کہ میں نے انٹرنیٹ پر تلاش کرنا شروع کر دیا۔ مجھے پیسے چاہیے تھے تاکہ میں ایم بی اے کروں، گھر پیسے بھیج سکوں اور کولکتہ کی اس ملازمت کو چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔ اسی دوران انٹرنیٹ پر میل ایسکارٹ یعنی جیگلو بننے کا راستہ نظر آیا۔ ایسا اب تک صرف فلموں میں دیکھا تھا۔ کچھ ویب سائٹس ہیں جہاں جیگلو بننے کے لیے پروفائلز بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ جاب پروفائل نہیں تھا۔ مجھے پروفائل بنانے میں خوف محسوس ہو رہا تھا لیکن میں اس جگہ پر کھڑا تھا جہاں میرے پاس صرف دو راستے تھے۔
میں نے ساری حدیں توڑ کر جیگلو بننے کا فیصلہ کیا۔میں جن خواتین سے ملا ان میں شادی شدہ، مطلقہ، بیوہ اور سنگل لڑکیاں سب شامل تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے لیے میں انسان نہیں مال (جنس) تھا۔ جب تک ان کی خواہش پوری نہ ہو جاتی سب اچھی طرح سے باتیں کرتیں۔ کہتیں کہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر تمہارے ساتھ رہوں گی۔ لیکن بستر میں کچھ وقت گزارنے کے بعد سارا پیار ختم ہو جاتا۔ پھر ان سے یہ سننا پڑتا: یہ معاشرہ ہم سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ہمیں ہی طوائف کہہ کر گالیاں دیتا ہے۔ ایک بار ایک شوہر اور بیوی نے ایک ساتھ بلایا۔ شوہر صوفے پر بیٹھا شراب پیتا اور ہمیں دیکھتا رہا۔ میں اسی کے سامنے اس کی بیوی کے ساتھ اسی کے بستر پر تھا۔ یہ کام دونوں کی رضامندی سے ہو رہا تھا۔شاید یہ دونوں یہ کوئی خواہش رہی ہو! اسی دوران، 50 سال سے زائد عمر کی خواتین بھی میری گاہک بنیں۔ وہ یہ بتاتی رہیں کہ کس طرح ان کا بیٹا اور گھر والے ان کی پروا نہیں کرتے۔ وہ ان سے دور رہتے ہیں۔ رات بھر وہ مجھ سے بیٹا بیٹا کہہ کر بات کرتی رہی۔ اس نے مجھ سے کہا: ‘بیٹا، اس کاروبار سے نکل جاؤ، یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔’ اس رات ہمارے درمیان کچھ نہیں ہوا۔
صبح کو اس نے مجھے بیٹا کہتے ہوئے پیسہ دیا جیسے کوئی ماں سکول جاتے ہوئے اپنے بچے کو دیتی ہے۔ مجھے اس عورت کی حالت پر ترس بھی آیا۔ پھر ایک دن جب میں نے بہت شراب پی رکھی تھی اور زندگی سے تھکا ہو محسوس کر رہا تھا تو میں نے اپنی ماں کو فون کیا۔ انھیں غصے میں کہا: ‘آپ پوچھتی تھی ناں کہ اچانک اتنے پیسے کیسے بھیجنے لگے۔ تو سنو۔ میں دھندا کرتا ہوں۔۔۔ دھندا۔’ انھوں نے کہا: ‘چپ رہ۔ شراب پی کر کیا اناپ شناپ بولتا ہے۔’ یہ کہہ کر ماں نے فون رکھ دیا۔ میں نے اپنی ماں کو سچائی بتائی تھی لیکن انھوں نے میری بات سنی ان سنی کر دی۔ میرے روانہ کردہ پیسے وقت پر گھر پہنچ رہے تھے۔ میں اس رات بہت رویا۔ کیا میری اہمیت صرف میرے پیسے کے لیے تھی؟ اس کے بعد میں نے کبھی اپنی ماں سے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ میں اس کام میں لگا رہا۔ کیونکہ مجھے پیسے مل رہے تھے۔ میری ڈیمانڈ تھی۔ سوچا کہ جب تک کولکتہ میں ملازمت کرنی پڑتی ہے اور ایم بی اے میں داخلہ نہیں لے لیتا تب تک یہ کام کرتا رہوں گا۔ لیکن اس کاروبار میں کئی بار عجیب لوگ ملتے ہیں جو جسم پر نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ نشان بھی جسم پر بھی ہوتے ہیں اور روح پر بھی اور اس درد کو صرف دوسرا جیگلو ہی سمجھ سکتا ہے۔ خواہ سماج جوچاہے کہے۔ مجھے اس پیشے میں داخلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں نے ایم بی اے کر لیا اور آج اسی کی بدولت کولکتہ سے دور ایک نئے شہر میں اچھی ملازمت کر رہا ہوں۔ خوش ہوں۔ نئے دوست بنے ہیں جنھیں میرے ماضی کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ شاید کسی کو یہ بات کبھی بتا بھی نہ پاؤں۔ ہم باہر جاتے ہیں، فلم دیکھتے ہیں۔ رانی مکھرجی کی ‘لاگا چنری میں داغ’ میری پسندیدہ فلم ہے۔ شاید اس فلم کی کہانی سے میں خود کو وابستہ پاتا ہوں۔ اگر ماضی کے بارے میں کبھی سوچتا ہوں تو کئی بار ایک چبھن ہوتی ہے۔ یہ ایسا باب ہے جو میری موت کے بعد بھی کبھی نہیں بدل پائے گا۔