کاروبار دنیا چلانے والے با اثر و با اختیار عالمی قائدین کی سوچ، اس سے تشکیل ہوتے رویئے اور ان کے رویوں کے اس پالیسی اور فیصلہ سازی پر اثرات جن پر عملدرآمد صرف ان کے ملکوں تک محدود نہیں ہوتے، سات ارب انسانوں کی پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ کچھ براہ راست اور بہت تیزی سے اور بعض پالیسیوں اور فیصلوں پر عملدرآمد کے نتائج بتدریج نکلتے ہیں جو دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ سوویت یونین کے قیام کا منطقی انجام بالآخر روسی کشور کشائی کا پارہ پارہ ہونا ہی تھا۔ 70اور 80کی دہائی میں پاکستان میں ہم دائیں بازو کے ’’امریکی ایجنٹ‘‘ یہ بات بڑے اعتماد سے کرتے تھے تو بائیں بازو کے ہمارے ہم وطن دوست، اسے ایک بہت خطرناک بیانیہ قرار دیتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ یہ ’’بیانیہ ملک میں خانہ جنگی کرا دے گا‘‘ کیونکہ اسلامی سوشلزم کی چھتری میں لیفٹ نے پہلی بار پاپولر اسٹیٹس حاصل کیا تھا جو عوامی ہونے کے ساتھ جارح بھی تھا، سو لیفٹ کی تشویش بنتی بھی تھی، لیکن ہمارے یقین کی بنیاد وہ میٹریل تھا جس کے گڈ مڈ ہونے سے ’’سوویت یونین‘‘ وجود میں آیا تھا اور وہ ہی اس کے قیام کی بنیاد تھی۔ ون پارٹی رول، ’’انقلابی‘‘ ٹولے کی خوفناک آمریت، اظہار آزادی رائے پر مکمل پابندی، سوال اٹھانے کی شدت سے حوصلہ شکنی، سرحدوں پر آئیرن کرٹین (آہنی پردے) کا سا ماحول، انسانیت کے سب سے بڑے نفسیاتی اور روحانی سہارے مذہب کی بیخ کنی۔ معیشت ریاستی ڈھانچے میں مقید اور اس سب کے خلاف سوچنے، بولنے، لکھنے اور کچھ کرنے پر بے پناہ قتل و غارت اور طرح طرح کے مظالم کی ان گنت بے ظاہر دبی داستانیں ہم دائیں بازو والوں میں، جنہیں بائیں والے ’’امریکی ایجنٹ کہہ کر پکارتے اس ظالمانہ اسٹیٹس کو کے اسی منطقی انجام کا یقین پیدا کرتی تھیں جو سوویت یونین کا ہوا۔
’’امریکی ایجنٹ‘‘ کا الزام تو ایک انقلابی سا طعنہ تھا جس میں شدت اور غصہ تھا، لیکن اتنا ضرور تھا کہ پاکستان میں امریکہ دائیں بازو والوں کے لئے ان حقوق کے حوالے سے ذریعہ محویت (سورس آف انسپائریشن) ضرور تھا جن سے سوویت ایمپائر کی حدود میں آئے کروڑ ہا انسان ہی محروم نہ کر دیئے گئے بلکہ مشرق کی تمام زیر اثر ریاستیں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس جہنم کا حصہ بنیں۔ سوال یہ ہے کہ 1992میں سوویت ایمپائر کی شیرازہ بندی، سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں اور بالٹک اسٹیٹس کی حقیقی آزادی اور دیوار برلن گرنے کے بعد مشرقی یورپ کے مکمل دور استبداد سے نجات کے بعد جو آج تک ہوا، 1917کے بالشویک انقلاب کا یہ ہی منطقی انجام ہے؟ جی نہیں، بالکل نہیں، منطقی انجام تو یہ ہوتا کہ جیسے امریکہ عالمی میدان سیاست کا تنہا ’’مرزا یار‘‘ رہ گیا تھا، وہ اپنی اس نئی عالمی حیثیت سے جس میں اس کا کوئی مقابل تھا نہ شریک، وہ اس پوزیشن میں تھا کہ جو جمہوریت، آزادی کئی لحاظ سے مساوات تشکیل و کاروبار حکومت میں عوامی شمولیت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور فروغ سوال، خود امریکہ کو دو سو سال کے جمہوری ارتقاء کے نتیجے میں حاصل ہوا جس سے وہ بعد از جنگ عظیم دوم جنگوں کے بغیر اثر پذیر عالمی طاقت بنا، پوری دنیا میں ان سب ارفع انسانی اقدار اور حصولات کا فروغ کرتا۔ فلسطین و کشمیر جیسے بڑے اور دوسرے چھوٹے تنازعات میں انصاف کی ممکنہ حد تک فراہمی سے حل کرا کر عالمی و علاقائی کو یقینی بناتا۔ یورپی یونین، نئے روس، مسلم بلاک، ابھرتے چین، جنوبی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے اشتراک سے نیا عالمی نظام اقتصادیات و سلامتی تشکیل دیتا، وہ اس امکانی منطقی انجام کی مزاحمت پر تل گیا۔ آغاز ایک ٹیلر میڈ عالمی نظریئے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ پیش کر کے کیا گیا جو یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ایک پروفیسر صاحب سموئیل ہنگ ٹنگ ٹن نے بین الاقوامی تعلقات کے شہرہ آفاق تحقیقی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ میں شائع ہوا۔ پھر جس طرح اس کی پذیرائی ہوئی اور جس طرح اسے عالمی علمی حلقوں کا موضوع بحث بنایا گیا، اس نے پہلا، بڑا واضح اور جلد درست ثابت ہونے پریہ عندیہ دیا کہ واشنگٹن بطور مرکز عالمی سیاست، سوویت ایمپائر کی شیرازہ بندی کے منطقی انجام کے عمل کو سرعت سے نہیں نکلنے دے گا بلکہ اس کو اپنی مرضی کا کوئی اور رخ دے گا جو ’’نئے قومی مفادات‘‘ کے تابع ہو گا، حالانکہ امریکی قوم کا وسیع تر قومی مفاد اسی میں تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کا منطقی انجام ہی نکلنے دیا جاتا، اور جو نیو ورلڈ آرڈر امریکی انتظامیہ نے ’’ورلڈ‘‘ کے بغیر اشتراک سے ورلڈ کے لئے تیار کیا، اسی چکر میں پریٹر کر اپنا چکر نہ چلاتا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے اس نے ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ کا جو ہوا (سوویت یونین کے خاتمے امکان کے ساتھ) گھڑا تھا وہ دراصل ان ہی عزائم کی تکمیل کا پس منظر ثابت کرنے کے لئے تھا، جس کے لئے نیو ورلڈ آرڈر گھڑنا مقصود تھا۔ جس کا حاصل دنیا میں ان اعلیٰ انسانی ارفع اقدار جو امریکہ کے تشخص کے طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد مانی گئیں، کے فروغ کی شکل میں نہیں، بلکہ یہ 9/11، افغان جنگ، دہشت گردی کی جنگ یورپ میں کیریکیچر ایشو عراق کی بلا جواز جنگ اور تباہی، مقامی تحاریک سے پیدا ہونے والی شمالی افریقہ میں پیدا ہونے والی اور شام، یمن اور بحرین تک پہنچ جانے والے عرب اسپرنگ کے خلاف منفی نتائج کی حامل مزاحمت، بھارت میں سیکولرازم پر ’’ہندو توا (ہندو ازم کی طرف واپسی)برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور بہتر ہوتے ہوتے پاک بھارت تعلقات کا کشیدگی میں تبدیل ہو جانا کی شکل میں نکلے ہیں۔
مسلم ریاستوں خصوصاً فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کے حل میں مدد دینے سے گریزاں امریکہ اگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایک نئے کردار کے ساتھ عالمی میدان سیاست میں اپنی پوزیشن لیتا تو آج یہ متنازع عالمی طاقت نہیں بلکہ ایٹ لارج قابل قبول سپر پاور سمجھا جاتا۔ جو یورپی یونین، مسلم دنیا، روس و چین، افریقہ، بھارت اور لاطینی امریکہ کے اشتراک سے پوری دنیا کو غالب طور پر لیڈ کر رہا ہوتا۔ سوویت یونین کے خاتمے کا یہ ہی وہ منطقی انجام ہوتا، جو امریکیوں کے لئے آئیڈیل ہونا اور ان کے تمام تر ابھرتے ’’قومی مفادات‘‘ کا تحفظ اس نئی عالمی صورت میں آئیڈیل حل تک ہوتا ۔ لیکن دنیا نے ’’منطقی انجام‘‘ کو روک کر اپنے گھڑے نئے نتائج حاصل کرنے کی ہوس میں دنیا کو بے پناہ تکلیف دی۔ اگلے ’’آئین نو‘‘ میں بھی اس پر بات جاری رہے گی کیسے؟
امریکی صدارتی انتخاب کے نتیجے سے یہ خدشہ کھل کر سامنے آیا ہے کہ خود امریکہ زیر بحث ’’منطقی انجام‘‘ کے خلاف مزاحمت اور اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کی تگ و دو میں مستقبل میں کسی بڑے خسارے کی راہ پر تو نہیں چل پڑا، غیر معمولی انتخابی نتائج ہی نہیں پوسٹ الیکشن امریکی داخلی صورتحال اس کا بہت ابتدائی اشارہ نہیں معلوم دے رہی؟
بشکریہ جنگ