واشنگٹن ڈی سی: امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایف بی آئی کے سربراہ جیمس کومے سے کہا تھا کہ وہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کے روس سے روابط کی تفتیش روک دیں اور انہیں جانے دیں۔
تفصیلات کے مطابق حال ہی میں برطرف کیے گئے سربراہ ایف بی آئی جیمس کومے کی ایک تحریری یادداشت (میمو) سامنے آئی ہے جو 14 فروری کو ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں کومے کی ایک ملاقات کے فوراً بعد مرتب کی گئی تھی۔ اس تحریری یادداشت سے پتا چلتا ہے کہ ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کومے سے کہا تھا کہ وہ مشیر برائے قومی سلامتی مائیکل فلن کے خلاف تفتیش رکوا دیں اور انہیں ’جانے دیں‘ کیونکہ وہ اچھے آدمی ہیں۔ اس کے اگلے ہی روز مائیکل فلن مستعفی ہوگئے تھے۔ وائٹ ہاؤس نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ نے جیمس کومے یا کسی اور سے مائیکل فلن کے بارے میں تفتیش ختم کرنے کےلیے کبھی کچھ نہیں کہا۔
فلن پر الزام تھا کہ انہوں نے روسی سفیر سے ملاقات کے بارے میں امریکی نائب صدر سے غلط بیانی کی تھی اور یہ الزام ثابت ہوجانے کے بعد فروری میں انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ البتہ چند روز پہلے ٹرمپ نے ڈائریکٹر ایف بی آئی جیمس کومے کو یہ الزام لگا کر برطرف کردیا کہ وہ ہلیری کلنٹن کی ای میلز سے متعلق معاملے کی تفتیش میں ’’بدنظمی‘‘ کے مرتکب ہوئے تھے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں اس برطرفی کا مقصد ایف بی آئی کو امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کی تفتیش سے باز رکھنا ہے۔
امریکی کانگریس میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن اور نگرانی و سرکاری اصلاحات سے متعلق کمیٹی کے سربراہ جیسن شافیٹز نے قائم مقام سربراہ ایف بی آئی کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ٹرمپ اور کومے کے مابین وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات اور اس دوران ہونے والی ساری بات چیت کا ریکارڈ 24 مئی تک کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔
ڈیموکریٹک پارٹی نے یہ تحریری یادداشت سامنے آنے کے بعد ٹرمپ پر شدید تنقید کی ہے اور انہیں انتہائی غیر ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ سیاسی و سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی خبروں کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہوتا چلا جارہا ہے کہ وہ امریکی صدارت کےلیے قطعی طور پر غیر موزوں ہیں۔ یہ خبر ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی داعش سے متعلق روس تک انتہائی خفیہ معلومات پہنچانے پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
وائٹ ہاؤس ذرائع نے اس خبر کی تردید کرنے کے بعد نیا مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی معلومات کسی تک بھی پہنچا سکتے ہیں جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امریکا کو جس ’’نامعلوم‘‘ ملک نے داعش سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹیں فراہم کی تھیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل تھا۔