ڈونلڈ ٹرمپ دیوانہ دِکھتا ہے مگر ہے نہیں۔ ایک پنجابی محاورے میں بتایا بلکہ ”گھر کا سیانا“ ہے۔ سی آئی اے کی طاقت کا اسے پورا علم ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا یقین بھی کہ دُنیا بھر کے دیگر ریاستی اداروں کی طرح امریکہ کو خوفناک جنگوں میں الجھانے والے اس ادارے میں بھی پیشہ وارانہ صاف گوئی سے کام لینے والے افسر ترقی نہیں کر پاتے۔ کلنٹن کے بعد سے اس ادارے نے لہذا ”ٹھوس ثبوتوں“کی بنیاد پر امریکی صدور کو وہی بتانا شروع کردیا جو وہ سننا چاہتے تھے۔
افغانستان کو ”فتح“کرنے کے بعد صدر بش صدام حسین سے بھی نجات حاصل کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اس کا باپ جو خود بھی کبھی سی آئی اے کا سربراہ اور بعد ازاں امریکی صدر منتخب ہوا تھا کویت کو عراقی قبضے سے آزاد کروانے کے باوجود صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ نہیں کر پایا تھا۔
کربلا، نجف یا بصرہ جانے کا اتفاق ہو تو آج بھی آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جو دُکھ اور نفرت سے اپنے گھروں میں پر ابھی تک موجود گولیوں کے نشانات دکھاتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی تصاویر بٹوں سے نکال کر رونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ان شہروں کی شیعہ آبادی کو یقین دلایا گیا تھا کہ صدام کے خلاف ذرا سی نعرے بازی کچھ جلسے جلوس ہو جائیں تو امریکہ اس کی مدد کو آئے گا۔ امریکی وعدوں پر اعتبار کرکے لوگ احتجاج کے لئے نکلے تو صدام حکومت کے ہیلی کاپٹروں سے برسائی گولیوں نے سینکڑوں نہتے شہریوں کو بھون کر رکھ دیا۔ کلنٹن سے پہلے والا بش مگر ٹس سے مس نہ ہوا۔
کلنٹن سے بعد آنے والے بش کو مگر حساب برابر کرنا تھا۔ عراق میں ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیاروں کے انبار”دریافت“ کر لئے گئے۔ صدام حسین کو ان ہتھیاروں سے محروم کرنے کے لئے 2003ءمیں عراق پر ایک خوفناک جنگ مسلط کردی گئی۔ اس جنگ کی وجہ سے کافی عرصے کے لئے نام نہاد عالمی برادری افغانستان کو بھول گئی ۔بالآخر امن و سکون نہ عراق کو نصیب ہوا نہ افغانستان کو دونوں ملک آج بھی ایک خونی خلفشار کا شکار ہیں۔ سی آئی اے کے کسی معمولی افسر کو بھی جھوٹی معلومات گھڑنے کی وجہ سے مگر کوئی سزا نہیں ملی۔ ادارے کا احتساب نہیں ہوا۔ وہاں سے ریٹائر ہوئے لوگ بلکہ اب کرائے کے قاتل فراہم کرنے کے دھندے کی بدولت لاکھوں میں کھیل رہے ہیں۔
”کنٹریکٹ“ پر کام کرنے والے یہ قاتل امریکہ کی سہولت کے لئے ان ”بنیاد پرستوں“ کو ”پراسرار حالات“ میں ہلاک کردیتے ہیں جنہیں امریکی قانون کے مطابق بآسانی سزائیں نہیں دلوائی جاسکتیں۔ یاد رہے کہ ریمنڈ ڈیوس بھی ایسا ہی کرائے کا ایک قاتل تھا۔اس نے دن دہاڑے دو نوجوانوں کو لاہور کے ایک پرہجوم چوک میں محض شبے کی بنیاد پر قتل کرڈالا۔ اوبامہ جیسے صدر نے جس کی اصول پسندی وغیرہ کو ان دنوں بہت دکھ سے یاد کیا جا رہا ہے اسی ریمنڈ ڈیوس کو ”سفارت کار“ ٹھہراکر اس کے لئے استثنیٰ مانگ لیا۔ ہماری غیرت وقومی حمیت نے چند روز تک بہت جوش دکھایا۔ ڈیوس کی رہائی کے لئے لیکن ”قصاص“ اور ”دیت“ والے قوانین سے رجوع کرنا پڑا۔ امریکہ اور اس کے دانشور اگرچہ اسلامی قوانین کو زمانہ قدیم کی قبائلی عصبیت کی پیداوار ٹھہراتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو سزا سے بچانے کے لئے ایسے ہی ایک قانون کا سہارا لیتے ہوئے انہیں ہرگز شرمندگی محسوس نہیں ہوئی۔
ڈونلڈٹرمپ کو خوب علم ہے کہ روس کے جاسوسی اداروں سے وابستہ چند لوگوں نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی ہم چلانے والے چند اہم افراد کے ای میل اکاﺅنٹس کو ہیک کرلیا تھا۔ اس کے ذریعے جمع شدہ معلومات کو ٹرمپ نے اپنے فائدے کے لئے بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ صدارتی انتخابات میں اس کی حیران کن کی فتح کے اسباب مگر قطعی طورپر مختلف اور امریکہ کی سفید فام اکثریت کے دلوں میں کئی برسوں سے ابل رہے تھے۔ امریکہ کا طاقتور اور معتبر بنا میڈیا ان اسباب کو مگر دیکھ ہی نہ پایا۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے اس نے دہائی مچادی کہ پیوٹن کے روس نے امریکی ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی قوت حاصل کرلی ہے۔
اوبامہ اور ہیلری کی شکست کے بارے میں ادا س ہوئے دیگرا فراد نے یہ کہانی فوراًَ تسلیم کرلی اس موقع پر سی آ ئی اے نے بھی خالصتاًََ پیشہ وارانہ بنیادوں پر ”خام“ نظر آتی کچھ معلومات کو طشت از بام کردیا۔ یہ خام معلومات برطانوی جاسوسی ادارے سے ریٹائر ہوئے ایک افسر نے ٹرمپ کے روس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جمع کی تھیں۔ ان معلومات کے ذریعے امریکی عوام کے دلوں میں یہ خدشات بٹھانے کی کوشش ہوئی کہ روسیوں کے پاس اپنی ”کرتوتوں“ کے بارے میں موجود ثبوتوں کی بنیاد پر ڈونلڈٹرمپ پیوٹن کے سامنے سر نہیں اٹھاپائے گا۔ قومی مفادات کا تحفظ نہیں کر پائے گا۔
ٹرمپ اس خوفناک اور انتہائی مو¿ثر پراپیگنڈے سے ہرگز نہیں گھبرایا۔ بہت جارحانہ انداز میں اس نے بلکہ سی آئی اے کا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ مجھ ایسے کئی سادہ لوح افراد یقین کر بیٹھے کہ ٹرمپ کو اس کے جاسوسی ادارے”چلنے“ نہیں دیں گے۔ صدارتی عہدے کا حلف اٹھانے کے ٹھیک ایک روز بعد لیکن ٹرمپ سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر چلاگیا۔ وہاں جمع ہوئے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اس نے ادارے کے ملازموں کے دل موہ لیے۔ اس کی تقریر کے دوران بھرپور تالیوں کے لمبے وقفے آتے رہے۔ گل مک گئی۔ قضیہ تمام ہوا۔
امریکی میڈیا کو ڈونلڈٹرمپ مگر اب بھی معاف کرنے کو قطعاًََ تیار نہیں یہ بات بالکل عیاں ہوچکی ہے کہ نام نہاد آزادی اظہار کی علامت بنے امریکی میڈیا کا ”مکو“ ڈونلڈ ٹرمپ ہر صورت ٹھپ کررہے گا۔ بھارت کے نریندر مودی نے اپنے ملک کے میڈیا کے ساتھ بالکل یہی رویہ برتا ہے۔ ان دنوں ترکی کے ”سلطان“ نے بھی وہاں کے سینکڑوں صحافیوں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے ۔ ووٹ کی طاقت سے ”منتخب“ ہوئے اس دور کے ہٹلر بھارت اور ترکی میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد اب امریکہ میں بھی متحرک ہوچکے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ”آزاد و بے باک“ میڈیا نے اپریل 2014ءسے کونے میں بیٹھ کر دہی کھانا شروع کردیا تھا۔ ہمارے ”سلطانوں“ کو مگر اب بھی قرار نہیں آیا ہے۔ میڈیا میں کبھی کبھار چند سوالات اٹھانے والے چند لوگ جو ابھی تک کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، میری ناقص رائے میں چند مہینوں بعد ہماری سکرینوں اور اخباری صفحات پر نظر نہیں آئیں گے۔ ان کی خاموشی کو یقینی بنانے کا منصوبہ طے ہو چکا ہے اسے صرف استعمال کرنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کیا جارہا ہے اور یہ انتظار کرتے ہوئے ایک پلاننگ کے تحت ٹی وی سکرینوں پر کچھ ایسے پروگرام چلنے دئیے جارہے ہیں جن میں ادا کئے الفاظ اور درشتی سے پہنچائے پیغام کی وجہ سے ہمارے ہاں آزادی¿ اظہار کے کئی بااعتبار چیمپئین بھی پریشان ہوکر حکومت اور پیمرا سے”کچھ کرنے“کی فریاد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔مجھے انتظار تو اب صرف ”کب“ کا ہے۔