لاہور (ویب ڈیسک) افغانستان میں تیزی سے رونما ہونیوالی تبدیلیوں کے نتیجے میں بہت جلد امریکی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے مابین ٹیلی فونک رابطے کا امکان ہے۔ اس کا فوکس طالبان اور امریکہ کے درمیان ایک ہفتہ جاری رہنے والے مذاکرات ہونگے۔ امریکہ اور پاکستان کی اس مشترکہ کوشش کے معروف تجزیہ کار امتیاز گل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔ نتائج تقاضا کرتے ہیں کہ چین، روس ، ایران اور ترکی بھی اس میں فعال کردار ادا کریں۔ امکان ہے کہ یہ فون کال صدر ٹرمپ 5 فروری کے سٹیٹ آف یونین خطاب سے قبل کرینگے، امید ہے کہ اس سے ایک اہم علاقائی فریق کے طور پر پاکستان کے کردار میں اضافہ ہو گا۔ افغانستان اور طالبان کے کردار پر بے مثل علاقائی اتفاق رائے پاکستان کی حد درجے کی سفارت کاری کا نتیجہ ہے، سول اور فوجی قیادت دونوں نے کامیابی سے نہ صرف چین سمیت دوست ملکوں کو قائل کیا بلکہ امریکی صدر کو ان کے نمائندے زلمے خلیل زاد کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ پاکستان کا واحد مفاد پر امن اور مستحکم افغانستان ہے۔ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو پیغام دیا گیا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی منظور نظر نہیں اور پاکستان چاہتا ہے کہ تمام افغان فریق اپنے بہتر مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ یہ واضح پیغام بھی دیا گیا کہ پاکستان امن عمل میں ہر ممکن تعاون کرے گا۔ اسی دوران پاکستانی حکام نے خاموشی سے طالبان تحریک پر دباؤ ڈالتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ ان کیلئے مصالحتی عمل کا حصہ بننے کا یہ بہترین وقت ہے۔یہ فکری اتفاق رائے اور شفاف نیت ہی تھی کہ حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کو وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں تسلیم کرنا پڑا، ‘‘ہم غلط تھے ’’۔ پاکستان نے متفقہ علاقائی پالیسی کی ضرورت کی نشاندہی کر کے ‘‘مشترکہ ذمہ داری ’’کا بیانیہ بھی پیش کیا۔ اس پر تمام علاقائی ملکوں نے اتفاق کیا اور کہا کہ اجتماعی پالیسی ہی افغانستان سے دہشت گردی کی لہر روکنے کا واحد راستہ ہے، جوکہ محض سیاسی نہیں، مالیاتی طور پر بھی کمزور کر رہی ہے، ٹرمپ جیسے غیر روایتی امریکی صدر کیلئے بھی یہ قابل فہم ہے۔ اگست 2017 کی ساؤتھ ایشیا سٹریٹجی کے ذریعے انہوں نے اپنی طاقتور اسٹیبلشمنٹ بشمول سابق وزیر دفاع جیمز میٹس کو افغانستان مشن کا جواز پیش کرنے کیلئے ایک سال کا وقت دیا تھا۔ مگر طالبان اور داعش کے خونی حملوں کی وجہ سے 2018 بدترین خونریزی کا سال ثابت ہوا۔ اس پر صدر ٹرمپ کا صبر جواب دے گیا، انہوں نے خلیل زاد کو اپریل کے صدارتی انتخابات سے قبل مختلف حکمت عملی آزمانے کی ذمہ داری سونپی۔ خلیل زاد کی شٹل ڈپلومیسی یقینی طور پر پاکستان کو تمام واقعات میں مرکزی سطح پر رکھ رہی ہے ،جس سے ٹرمپ اور عمران خان کے مابین کم از کم ایک ٹیلی فون کال کی راہ ہموار ہو رہی ہے کہ عمل کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اس کا واحد راستہ افغانوں کے مابین ڈائیلاگ ہیں۔ ادھرصدر اشرف غنی جوکہ امریکہ طالبان بات چیت میں اپنی حکومت کے شامل نہ کئے جانے پر نالاں تھے، اب وہ بھی امن عمل کی اونرشپ قبول کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ افغانوں کے مابین ڈائیلاگ میں بڑی رکاوٹ طالبان کایہ مطالبہ ہے کہ امریکی فوجی انخلا کی حتمی ڈیڈلائن دی جائے۔ وہ کھل کر کابل حکومت کیساتھ براہ راست بات چیت مسترد کر چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ ڈیڈ لائن کو تسلیم کئے بغیر جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ سول اور فوجی حکام کا اصرار ہے کہ خلیل زاد اور طالبان امن عمل کو آگے بڑھانے کی خدوخال پر اتفاق کر چکے ہیں، اب وہ اقتدار کی منتقلی کی تفصیلات پر کام کر رہے ہیں، یہ انتہائی نازک اگلا مرحلہ ہے، یعنی افغانوں کے مابین مذاکرات جوکہ شراکت اقتدار کے عبوری فارمولے، آئینی ترامیم اور عام انتخابات کا پیش خیمہ بنیں گے۔ نئی صورتحال کی وجہ سے صدارتی انتخابات کا عمل رک گیا ہے ، کیونکہ اگر اشرف غنی یا قومی حکومت کا کوئی رکن صدر بن جاتا ہے، تو طالبان امن عمل جاری رکھنا نہیں چاہیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق طالبان اور امریکہ نے عبوری سیٹ اپ کیلئے کچھ ناموں پر تبادلہ خیال کیا۔ امن عمل کی راہ میں کئی دیگر مشکلات بھی حائل ہیں، افغان رہنماؤں کی ایک قلیل تعداد طالبان سے سخت نفرت اور ان سے بات چیت کے خلاف ہے۔ نجی محفلوں میں صدر اشرف غنی ابھی تک پاکستان کو طالبان کا سرپرست قرار دیتے ہیں۔ یہ چھوٹی مگر بااثر لابی جس کے بھارت سے رابطے ہیں، امن و مصالحت کی راہ میں بڑی رکاوٹ اورپورا عمل اگر سبوتاژ نہیں تو متاثر ضرور کر سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سخت مخالف کے باوجود آئندہ چند دنوں میں صدر ٹرمپ کیسے ان افغان لابیوں کو بے اثر بناتے ہیں، جنہیں خدشہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کی ممکنہ مفاہمت انہیں غیر اہم بنا سکتی ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ امن عمل اگلے مرحلے یعنی افغانوں کے مابین مذاکرات میں داخل ہو گیا ہے، مخالف لابیاں اسے نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کریں گی۔ اس سے مراد امریکہ ، پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کو درپیش چیلنجز ہیں۔ اس لئے خوشیاں منانے کے بجائے سب کو چھوٹے چھوٹے قدموں کیساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔