حالیہ امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے پاکستانی قوم فکر مند نظر آئی اور ہر پاکستانی یہ سوال کرتا نظر آیا کہ پاکستان کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ بہتر رہیں گے یا ہیلری کلنٹن؟ لیکن میرا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کیلئے دونوں میں سے کون کم نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ امریکی انتخابات میں پاکستانیوں کی دلچسپی کی بڑی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ اور وہ بیانات تھے جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران دیئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیانات میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’’مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں، اِس لئے ہمیں ایسے لوگوں کو امریکہ نہیں آنے دینا چاہئے اور اگر وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی عائد کردیں گے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بیانات میں مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کا تعلق دہشت گردوں سے جوڑتے آئے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اسلام فوبیا کا شکار ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اُن کے بقول پاکستان امریکہ کیلئے مسائل پیدا کرنے والا اور بھارت امریکہ کے مسائل حل کرنے والا ملک ہے، اگر وہ امریکہ کے صدر بن گئے تو امریکہ، بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی اور دونوں ممالک بہترین دوست بن جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ شکیل آفریدی کو پاکستان کی قید سے آزادی دلاکر دو منٹ میں امریکہ لے آئیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انہی بیانات کے باعث پاکستانیوں کی اکثریت اُن سے نالاں تھی اور انہیں پاکستان کیلئے خطرہ تصور کیا جارہا تھا جبکہ دوسری جانب بھارت میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کیلئے مندروں میں پوجا پاٹ کی گئی اور کامیابی کے بعد پورے ملک میں جشن منایا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں پاکستان اور بھارت کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے بارے میں ہمیشہ منفی باتیں کرتے رہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو دنیا بالخصوص امریکہ کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور امریکہ کا فطری اتحادی بھی قرار دے چکے ہیں جبکہ انہوں نے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان پر چیک رکھنے کیلئے بھارت کو استعمال کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا جس سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے کیلئے امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ماضی میں امریکہ، پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعداندیشہ ہے کہ ’’ڈو مور‘‘ کے امریکی مطالبے میں شدت آئے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالف صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی جماعت ڈیمو کریٹس کے بارے میں ہر پاکستانی یہ جانتا ہے کہ ڈیموکریٹس کا جھکائو ہمیشہ سے بھارت کے حق میں رہا ہے۔ ڈیمو کریٹس سے تعلق رکھنے والے موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں پاکستان کو امریکی امداد میں کمی، ایف سولہ طیاروں کی عدم فراہمی، امریکہ کا بھارت سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی معاہدہ اور پاکستان سے معاہدہ کرنے سے انکار جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ اسی طرح امریکی صدر باراک اوباما جب بھارت تشریف لائے تو انہوں نے پاکستان آنا تک گوارہ نہیں کیا جبکہ ان کے دور میں ہی امریکہ نے بھارت سے اُس کے فوجی اڈے استعمال کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔ باراک اوباما کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں کئی بار کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ ان کی کابینہ کی اہم رکن ہیلری کلنٹن جب وزیر خارجہ تھیں تو انہوں نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ انہوں نے اپنے دور میں پوری کوشش کی کہ کسی طرح بھارت کو نیوکلیئر کلب میں شامل کرلیا جائے مگر چین کی مخالفت کے باعث اُن کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اس لئے یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اگر ہیلری کلنٹن امریکی صدر منتخب ہوگئیں تو اُن کا جھکائو بھارت کی طرف ہی رہے گا اور وہ پاکستان مخالف اور بھارت کے حق میں اپنی پالیسی جاری رکھیں گی۔
امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت کی طرح امریکہ میں بھی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والا شخص برسراقتدار آسکتا ہے اور اس سے امریکیوں میں پائی جانے والی نفرت انگیز سوچ کی توثیق ہوتی ہے۔ ہیلری کلنٹن کی شکست کی بڑی وجہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی موجودہ صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ خاتون اول مشل اوباما کا صدارتی امیدوار کے حق میں کھل کر انتخابی مہم چلانا تھا جو ہر موقع پر یہ کہتے نظر آئے کہ ’’ہیلری کلنٹن ہماری پالیسیوں کو لے کر آگے چلیں گی۔‘‘ حالانکہ امریکی عوام ملک میں تبدیلی کے خواہاں تھے جس کا ڈونلڈ ٹرمپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے پر بھی امریکی قوم منقسم نظر آئی جن کی اکثریت غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ میں کوئی رعایت دینے یا اُن کے ساتھ نرمی برتنے کے حق میں نہیں تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں اور نظرثانی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے مابین فری ٹریڈ سمیت کئی عالمی معاہدے ختم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جن کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اِن معاہدوں کے نتیجے میں امریکی نوکریاں ملک سے باہر چلی گئیں۔ امیگریشن کے معاملے میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور 11 لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے بے دخل کرنے کے موقف پر قائم رہیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقریروں میں نیٹو پر بھی سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ اُن کے بقول نیٹو بہت پرانی اور ناکارہ ہوچکی ہے، امریکہ اب ایشیا اور یورپ کی حفاظت کیلئے اِن جیسی تنظیموں کا مالی بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامی نظر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر روسی صدر ولادی میر پیوٹن اپنے رویئے میں تبدیلی لائیں تو امریکہ، روس کشیدگی میں کمی ہوسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات محض ووٹ حاصل کرنے کا حربہ تھے یا وہ واقعتا اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بیانات پر قائم رہے تو دنیا منقسم ہوکر رہ جائے گی اور امریکہ کے پرانے اتحادی بھی اُس کا ساتھ چھوڑ دیں گے مگر میرے خیال میں اِس بات کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ امریکہ کا صدر کوئی بھی ہو، فیصلے وہی کئے جاتے ہیں جس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل ہو۔
بشکریہ جنگ