تحریر: اختر سردار چودھری
افسانہ اردو ادب کی نثری صنف، زندگی کے کسی ایک واقعہ کی تفصیل، کسی خاص مقصد ،خیال ،تجربے،جذبے ،واقعہ کو سامنے رکھ کر اسے کہانی کی صورت میں پیش کرنے کو کہتے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب اردو ادب میں بہت اچھے افسانہ نگار تھے ۔پھر ہوا یہ کہ قاری کا کتاب سے رشتہ کمزور ہوا اس کے کئی اور بھی اسباب ہوں گے ،لیکن اچھا افسانہ بھی کم لکھا گیا ، ہر عہد کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں،ایسے افسانے کم لکھے گئے جن کی بنیاد عہد موجودہ کے مسائل و واقعات پر ہو ،یا اسے موجودہ زمانے کی بصیرت کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہو۔نئی پیڑھی (نئی نسل) کے مسائل اور تھے ،حالات اور تھے ان کی ضرورت اور تھی جسے پورا کرنے کی غرض سے کہا جا سکتا ہے کہ افسانہ بھی وقت کے ساتھ بدلا ،اس کا انداز بدلا ۔مجھے افسانے پڑھنے کا شوق شروع سے ہی تھا ،پہلے صرف افسانے سے غرض ہوتی تھی ہم لکھاری کا نام بھی نہیں پڑھتے تھے یا اسے بھول جاتے تھے ۔لیکن اچھا افسانہ یاد رہتا تھا خاص کر ایسا افسانہ جس کا پلاٹ ،کہانی ،اور انجام چونکا دے ۔ جو منفرد ہو ۔
جاوید اختر چودھری کا شمار ان ادبا ء میں ہوتا ہے جنہوں نے زمانے کی بصیرت کو سامنے رکھ کر افسانے لکھے ہیں ۔ان کی ایک کتاب بعنوان ‘ٹھوکا’ پڑھنے کا موقع ملا جس میں کل 15 افسانے ہیں ۔سب سے مختصر افسانہ ” وزیٹنگ کارڈ” جو کہ 4 صفحات پر اور سب سے طویل ” اپنی اصل کی طرف” جو کہ 28 صفحات پر مشتمل ہے۔ان دو میں سے مجھے ” وزیٹنگ کارڈ” نے بہت متاثر کیا ،اس کا انجام ایسا ہے جو قاری کو مدتوں یاد رہے گا ۔یہ بہت ہی نفیس ،حسین ،وفادار، اور خاص عورت کی مختصر کہانی جسے اپنے عام سے شکل و صورت خاوند سے اعتبار و پیار تھا۔ ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں وہ خاوند کے ساتھ شریک ہوئیں سب اس سے باتیں کرنے ،قرب حاصل کرنے کو بے چین تھے وہ جب صاحب کتاب سے آٹو گراف دینے کا کہتی ہے تو وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وزیٹنگ کارڈ پر بین السطور اس کے حسن کی تعریف اور ملاقات کی خواہش کا اظہار لیے دو شعر لکھ کر دیتے ہیں ۔وہ صاحب کتاب سے کہتی ہیں۔
وزٹینگ کارڈ کا استعمال آپ نے خوب کیا ہے ۔آپ بھی موقع سے فائدہ اٹھانے والوں سے مختلف نہیں نکلے ۔ اس کہانی کا انجام چونکا دینے والا ہے ۔پاکستان کے مشہور و معروف صحافی جناب عبدالقادر حسن نے ایک بار کہا تھا کہ مختصر لکھنا انتہائی مشکل کام ہے یہ ایک فن ہے ،جاوید اختر چودھری کے بہت سے افسانوں کے علاوہ خاص کر اس افسانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاوید صاحب اس فن سے آشنا ہیں ۔”اپنی اصل کی طرف “ایسی کہانی ہے جس کا انجام کیا ہو گا اس کا علم قاری کو پہلے سے ہو جاتا ہے ۔اس کی اس خامی نے مجھ پر وہ تاثر نہیں چھوڑا ،حالانکہ اس کا پلاٹ بہت اچھا تھا ۔اس کہانی پر تو کوئی ٹی وی ڈرامہ بنانا چاہیے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت خوبصورت کردار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
ان کے دو افسانے 7 ،سات صفحات پر مشتمل ہیں جن کے نام ہیں ” زلزلے کے بعد” اور” ہوا میں نہ غرق دریا” ،اول الذکر افسانہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے ۔اس میں پانچ مناظر دیکھائے گئے ہیں ۔مظفر آباد میں زلزلہ آتا ہے ،خریدار خیمے لینے کے لیے ایک حاجی ،نمازی ،کی دکان پر جاتا ہے فی خیمہ پانچ ہزار کا ہوتا ہے ،جب حاجی صاحب کو علم ہوتا ہے کہ زلزلہ آیا ہے تو خیموں کی قیمت ڈبل کر دیتا ہے ۔ایسے لوگ جو نماز ادا کرتے ہیں ،حج کرتے ہیں ،ہر وقت تسبیح کرتے رہتے ہیں پورے کے پورے اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہوتے ،اسلام صرف عبادات کا نام نہیں ہے معاملات اور حقوق العباد کا بھی نام ہے ،ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ ،ناجائز منافع کرنے والوں کا اسلام سے کیا تعلق ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اور ایسا کرنے والے مسلمانوں کو اس پر شرمندگی بھی نہیں ہے ۔زلزلے کے بعد کے دوسرے منظر میں برطانیہ میں چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے زلزلے کے متاثرین کے لیے سامان لے کر خیرات علی اسلام آباد پہنچتا ہے ٹرک ڈرائیور سے مظفر آباد جانے کا کرایہ اس سے تیں ہزار مانگا جاتا ہے جو کہ زلزلے سے پہلے دس ہزار ہوتا ہے ۔خیرات علی ڈرائیور کو شرم دلاتا ہے اور خوف خدا کرنے کا کہتا ہے جس پر ڈرائیور پورے یقین سے کہتا ہے کہ تم نے کون سے اپنے پاس سے دینے ہیں تم بھی تو چندہ اکٹھا کر کے لائے ہو حکمرانوں کے منہ پرطمائچہ تیسرے منظر میں ہے جس میں ایک وزیر زلزلے کے دو دن بعد مظفر آباد جاتا ہے
اور کہتا ہے کہ میں ایک قبرستان کا وزیر اعظم ہوں ،اس سے پہلے وہ چلتی پھرتی لاشوں کا وزیر اعظم تھا ،قبرستان کے وزیر اعظم نہیں مجاور ہوتے ہیں اور آج کے یہ مجاور تو ایسے ہیں کہ بن مانگے ان کے کشکول میں ہر ملک اور ہر قوم کی خیرات کے سکے جمع ہو رہے ہیں اور اس کا بھی یقین نہیں کہ یہ حقدار تک بھی پہنچ رہے ہوں گے ۔چوتھی جھلک میں بریڈ فورڈ میں امدادی سامان کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ اپنا کاٹھ کباڑ اٹھا لائے بجائے اس کے قابل استعمال سامان دیتے ۔پانچواں منظر ایسا ہے اسے ایسے الفاظ سے بیاں کیا گیا ہے کہ اگر بے توجہی سے نہ پڑھا جائے تو جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
باپ بیٹا عید کا سامان لانے کے لیے گائوں سے شہر کی طرف جاتے ہیں ابھی ایک کلومیٹر کا ہی سفر طے کرتے ہیں کہ زلزلہ آتا ہے اور ان کی بستی ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے ۔وہ واپس گائوں آتے ہیں ان کو کوئی امدادی سامان نہیں مل رہا ہوتا عید قریب آ رہی ہوتی ہے ،بھوک ،پیاس سردی سے تنگ آکر بیٹا باپ سے کہتا ہے ۔ابا اچھا ہوتا ہم عید کا سامان لینے کے لیے گائوں سے باہر نہ جاتے ۔باپ بیٹے کو تسلی دیتا ہے اور سینے سے لگا لیتا ہے ۔اس منظر کو دیکھ کر حساس طبع قاری کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔چھٹے منظر میں ہلال احمر پاک فوج کے جوان امدادی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں کہ ریڈیو پر خبریں نشر ہو رہی ہوتی ہیں ایک خبر ہوتی ہے
عید کا چاند نظر آ گیا ہے کل عید ہوگی ۔اس لمحے ان کی نظر ایک بوڑھی عورت پر پڑی جو دور بیٹھی منہ ڈھانپے مدھم آواز میں سسکیاں لے رہی تھی دونوں جوان اس کے پاس جاتے ہیں اسے عید کی خوشخبری سناتے ہیںکہ” مطلع” صاف ہے،چاند نظر آگیا ہے کل عید ہو گی ۔بوڑھی خاتون نے حسرت و یاس سے ان کی طرف دیکھا اور زمین بوس بستی کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ،ابھی” ملبہ” کہاں صاف ہوا ہے ،اور میں کون سا چاند دیکھوں گی۔
میرا چاند تو پتھروں کے نیچے دبا ہوا ہے ۔سات صفحات پر مشتمل دوسرا افسانہ” ہوا نہ میں غرق دریا” جس کا ہیرو ایک کمپنی کا مالک ہوتا ہے وہ اپنی کمپنی میں کام کرنے والے ایک آدمی سے ملتا ہے جو اسے نہیں جانتا ہوتا ۔لیکن وہ اپنی گرل فرینڈ سے لمبی لمبی چھوڑ رہا ہوتا ہے ۔لڑکی اسے دھوکہ دے کر غائب ہو جاتی ہے تو کمپنی کا مالک اس سے کہتا ہے کیا تم کبھی چیف سے ملے ہو وہ کہتا ہاں آج صبح ہی ملا ہوں تب اللہ دتہ عرف اے ڈی گورا جو کہ چیف ایگزیکٹیوہوتا ہے اسے اپنا کارڈ دیتا ہے تو اس کا شرمندگی سے برا حال ہو جاتا ہے ۔تجسس لیے ہوئے ایک عام سے کردار کی خاص کہانی ۔
تین افسانے ایسے ہیں جن کے صفحات کی تعداد فی افسانہ 8 صفحات ہیں ان میں “ٹھوکا” ،”بوکہاں سے”،اور” نمبر “271 شامل ہیں ۔تینوں کہانیاں اس معیار پر پوری اترتی ہیں کہ اگر آپ آدھے سے زیادہ بھی افسانہ پڑھ کر اس کے انجام کا اندازہ لگانا چاہیں تو جو بھی آپ کا اندازہ ہو گا انجام اس سے مختلف ہو گا ۔”بو کہاں ہے” ایک منفرد ترین افسانہ ہے ،اور” نمبر “271 تو اس سے بھی مختلف ہے ۔ٹھوکا کی بابت بات بعد میں کرتے ہیں ،پہلے” بو کہاں ہے “کی جھلک دیکھیں ۔ قارئین ہم ان افسانوں کی چند جھلکیاں اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ آپ محفوظ بھی ہو سکیں ۔سید ظاہر علی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ،برطانیہ جاتے ہیں ،گھروں میں قالین بچھانے کا کام سیکھتے ہیں
اپنا کام شروع کر دیتے ہیں ۔ان کی ملاقات ایک سکھ کرپان سنگھ سے ہوتی ہے جو سید ظاہر علی کی طرح پینے پلانے کا شوقین ہوتا ہے وہ نیا مکان خریدتا ہے تو ظاہر علی سے اپنے گھر میں قالین بچھانے کا کہتا ہے ظاہر علی اپنے اسسٹنٹ سبز گل کے ساتھ ان کے گھر جاتے ہیں ، سبز گل کو دوران کام گھر سے بد بو آتی رہتی ہے ۔وہ ظاہر علی سے کہتا ہے کہ کس کافر کے گھر لے آئے ہو جہاں اتنی بو ہے ۔ظاہر علی اس وقت بہت حیران ہوتا ہے جب اس کو کرپان بتاتا ہے کہ اس کا بیتا کشمیر سنگھ کہ رہا ہے کہ جب سے یہ مسلے (مسلمان )ہمارے گھر آئے ہیں بدبو آرہی ہے ۔ظاہر علی کو بعد میں علم ہوتا ہے کہ یہ بو کہاں سے آرہی تھی دراصل اس کے اسسٹنٹ سبز گل کے جوتے سے لگی گندگی اس کی وجہ تھی ۔لیکن دونوں یعنی سبز گل اور کرپان اسے مذہب سے جوڑ رہے تھے ۔
“نمبر “271 اس لحاظ سے ایک منفرد کہانی ہے کہ انیس احمد جھوٹ کے بل بوتے پر کامیاب زندگی گزار رہاتھا ،سچ بولنے کا اسے بہت تلخ تجربہ ہوتا ہے جسے وہ کبھی بھلا نہ پایا ۔انیس احمد مصنف کو جب اپنی کہانی سناتا ہے اس وقت تک اس کی زندگی میں 419 گرلز فرینڈ سے تعلقات رہ چکے ہوتے ہیں بقول انیس احمد میں نے جھوٹ کے سہارے بہت کامیاب زندگی بسر کی میں نے اپنی سابقہ ہر گرل فرینڈ سے جھوٹ بولا کہ میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے اور نہ ہی میں شادی شدہ ہوں ۔ لیکن سیسی نام کی گرل فرینڈ جو کہ شادی شدہ ہوتی ہے اس کی زندگی میں آنے والی لڑکیوں میں جس کا نمبر 271 واں تھا اس سے پہلے جھوٹ پھر اس سے سچ بول دیتا ہے۔دراصل انیس احمد کو سیسی سے محبت ہو جاتی ہے اس لیے اسے سچ بتا دیتا ہے ۔ لیکن سچ سن کر سیسی اپنا گھر ،شوہر ،ملک چھوڑ کر ایسی غائب ہوتی ہے کہ باقی زندگی انیس احمد اس کی تلاش میں گزار دیتا ہے ،دنیا کا کونا کونا چھان مارتا ہے لیکن وہ اسے نہیں ملتی وہ پچھتاتا ہے کہ اس نے سچ کیوں بولا تھا ۔اسے اپنے جھوٹ پر قائم ہی رہنا چاہیے تھا۔
“ایک عمر کی اجرت “،”عطر حیات” او”ر مہذب اور غیر مہذب “تینوں افسانے 13,,13 صفحات پر مشتمل ہیں ۔اور اپنی مثال آپ ہیں ۔”ایک عمر کی اجرت” تجسس سے بھر پور کہانی ہے کہ قاری تیز تر پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔اس کا مرکزی خیال جعلی پیرو ںپر اندھی عقیدت کیسے زندگیاں برباد کر رہی ہے اور یہ کہ غریب کے پاس عزت ہی تو ہوتی ہے لیکن مقروض کے پاس وہ بھی نہیں رہتی ۔دوسرے افسانے” عطر حیات “کا ایک فقرہ جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ہے “گناہ سے نفرت کرو لیکن گناہ گار کو دھتکارو مت “۔ ان تینوں افسانوں میں تجسس کے لحاظ سے اول الذکر” ایک عمر کی اجرت “،ایڈونچر کے لحاظ سے “عطر حیات” اورمطالعہ کے بعد دیر تک سوچنے پر مجبور کرنے والا افسانہ” مہذب ،غیر مہذہب “ہے۔
جس میں ایک دوشیزہ کی مسلمانوں کے بارے میں دوہرے معیار کو دیکھایا گیا ہے ۔کیرل مسلمانوں کو خاص کر عرب النسل افراد کو غیر مہذب سمجھتی ہے لیکن ان کے سامنے لباس فطرت میں ڈانس کر نا ،اور ان سے ملنے والے درہم کو جائز سمجھتی ہے اور خود کو ایسا کرنے پر غیر مہذب نہیں سمجھتی ۔کیرل برطانیہ کی شہریت رکھتی ہے وہ ایک ثقافتی طائفے کے ہمراہ اسلام آباد،بمبئی،دبئی میں جاتی ہے ،اس مختصر افسانے میںان چاروں ممالک کے مردوں کی فطرت سے آگاہ کیاگیا ہے ۔برطانیہ میں مرد وں کے لیے عورت کا ننگا جسم کوئی اہمیت نہیں رکھتا ،پاکستان میں مردوں کی اکثریت کی آنکھوں میں عورت کے لیے ہوس ہوتی ہے ،بھارت میں ملا جلا رحجان اور دبئی میں لاکھوںدرہم ڈانس (فطری لباس میں )پر لٹا دیئے جاتے ہیں ۔ایسا ڈانس کرنے سے ملنے والے درہم کیرن باعث عزت سمجھتی ہے ۔ایک عمر کی اجرت ایسا افسافہ جس پر بہتریں تبصرہ اس کا مطالعہ ہی ہے ۔(جاری ہے)
(حصہ دوم )
قارئین جاوید اختر چودھری کے افسانوی مجموعے ٹھوکا پر تبصرے کی دوسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے ۔” باشٹر 16″ صفحات پر مشتمل ایک لاجواب افسانہ ہے ۔یہ ایک پاکستانی ماسٹرفضل دین کی کہانی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس سے کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ بیرون ملک جا کر اس سے کہیں زیادہ امیر ہوچکے ہیں اور وہ گائوں میں ٹھاٹ سے زندگی گزار رہے ہیں تو وہ امیر بننے کے لیے اپنی زمین بیچ کر برطانیہ جا پہنچتا ہے ۔وہاں جا کر بے کاری کے دن ،پھر ایک فیکٹری میں ذلت آمیز نوکری جس میں ایک سفید فام سپروائزراسے باشٹر(باسٹرڈ) کہ کر بلاتا ہے تو وہ حیران ہوتا ہے کہ اسے کس نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ماسٹر تھا ۔ جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے نوکری چھوڑ دی۔
اب شدید محنت اور ذلت آمیز زندگی شروع ہوتی ہے۔ قصہ مختصر اچھی نوکری مل جاتی ہے ، ،شادی کرتے ہیں ،پیسے کمانے ،بچانے لگتے ہیں ،پاکستان میں جائیداد بناتے ہیں، ۔جس پر ان کے عزیزقبضہ کر لیتے ہیں ،کہانی اپنے انجام کی طرف بڑھتی ہے،جائیداد سے قبضہ چھڑوانے کے لیے ان کا ایک شاگرد میدان میں آتا ہے ،جو ان کی جائیداد بیچ تمام رقم لے کر رفو چکر ہو جاتا ہے ۔تب وہ خود کو باشٹر کہتے ہیں ۔بیرون ملک رہنے والوں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ۔چند دن قبل جب چودھری سرور نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو اس بات کا اعتراض کیا کہ تارکین وطن کے ساتھ پاکستان میں فراڈ ہوتا ہے جس پر پاکستان کے مشہور کالم نویس نذیر ناجی نے کالم لکھا اور بتایا کہ ان کی اپنی جائیداد پر قبضہ ہو چکا ہے جسے وہ قبضہ مافیا سے چھڑا نہیں سکا ۔جناب چودھری سرور نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ پاکستان میں قبضہ مافیا اس کے گورنر سے زیادہ طاقت ور ہے ۔ “وہ حشر بلا خیز” 17 صفحات پر مشتمل افسانہ ہے۔
بابر علی کی سرگزشت ،اس کے اندر ایک نفسیاتی گرہ بچپن میں بن جاتی ہے ،مردانہ سفاکیت کی ،وہ جب بیرون ملک جاتا ہے تو تھوڑے عرصے بعد برمنگھم برطانیہ میں نیو گلوبل ٹریول سروس سے اپنے کام کا آغاز کیا ،کام بدلتا رہا ،ترقی کرتا رہا ،جب آمدن وسیع ہوئی تو عیاشی کے لیے وہ ملک ملک پھرتا ہے ،اس دوران بہت سے مناظر ،واقعات ،کہانی کا حصہ بنتے ہیں ۔کہانی کا انجام بچپن میں اس کے ذہین میں بیٹھ جانے والی نفسیاتی گرہ کی وجہ سے اسے جیل ہو جاتی ہے ۔اس کہانی پر تبصرہ یہ ہے کہ کوئی تبصرہ نہ کیا جائے ۔بلکہ اسے پڑھا جائے اردو ادب کے افسانوں میں یہ ایک بہترین افسانہ ہے ۔جس میںجنسی آسودگی کی تلاش جیل تک لے جاتی ہے ۔ان افسانوں میں سے ایک جس کا انجام چونکا دینے والا ہے اور آخری سطر تک قاری کا تجسس برقرار رہتا ہے ۔
“اندر اور باہر کا موسم” 18 صفحات پر مشتمل افسانہ ملک نثار کی زندگی کی کہانی ہے اسے افسانہ کہنا چاہیے یا مختصر ناول ،اسے کہانی بھی کہا جا سکتا ہے ۔حیرت انگیز انجام کی حیرت انگیز کہانی ہے شروع کے دو صفحات بور کرتے ہیں۔ملک نثار ایک عاشق مزاج انسان ہوتے ہیں ،پاکستان میں بہت سے معاشقے کیے ،اور بہت سی خواتین سے تعلقات رہے ،برطانیہ جا کر بھی ان کا یہ شغل جاری رہا ان دنوں پاکستان میں ایک رجو نام کی لڑکی سے اس کا معاشقہ چل رہا تھا،رجو سے باتیں کرنے کے دوران اسے پتا چلتا ہے کہ ماضی میں رجو کی ماں اور ساس سے بھی ملک کے تعلقات رہ چکے ہوتے ہیں یہ بات وہ رجو کو بتا بھی دیتا ہے پھر کہانی جب مزید آگے بڑھتی ہے۔
سگریٹ ،شراب نوشی اور عورت سے بہت زیادہ اختلاط آخر کار رنگ لا کر ہی رہتا ہے چنائچہ ان تینوں نے اس کے اعضا پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا ،اس کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوگیا تھا اور اس کی یادداشت بھی متاثر ہونے لگی تھی ۔ ،رجو کو ملک نے اپنی بیماری کے متعلق بتایا وہ اپنا گردہ دینے برطانیہ آنے کا اظہار کرتی ہے ،جسے ملک شش و پنج میں قبول کر لیتا ہے ۔رجو برطانیہ آ جاتی ہے ۔اس وقت ملک جو خود کو پلے بوائے سمجھتا تھا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے ۔رجو سے مل کرملک پر ایک بھیانک انکشاف ہوتا ہے کہ رجو اس کے پہلے پہلے پیار کی یادگار ہوتی ہے ،رشتے میں اس کی بیٹی،وہ رجو سے کہتا ہے کہ اب اس کو گردے کی ضرورت نہیں ہے اس کی باقی جو زندگی ہے
رجو بس اس کے سامنے رہے ،رجو کے دل میں اپنے باپ کے لیے دل میں نفرت تھی ،اور ہمدردی تھی ۔لیکن ایک رات ملک کی طبعیت بہت خراب ہو جاتی ہے ۔رجو سے اس کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی ۔اضطراری حالت میں رجو نے تکیہ اٹھایا ،ملک کے منہ پر رکھا ،دبائے رکھاجب تک ملک کا جسم ساکت نہ ہو گیا ۔قانون کے سامنے یہ سوال ہے کہ ملک نثار کی موت قتل رحمی تھا یا کچھ اور ۔ ۔۔”ہنر مند “،اور “تصویر کائنا ت کا ایک رنگ “،ان میں ہر افسانہ 24 صفحات پر مشتمل ہے ۔ہنر مند کا موضوع لالچ ہے جس میں لوگوں کو لالچ دے کر لوٹتا ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ مصنف خود اس کو نصیحت کرتا رہتا ہے کہ بیرون ملک جا کر کوئی ایسا ملک کی بدنامی والا کام نہ کرناچاہیے وغیرہ لیکن کہانی کا انجام یہ ہے کہ مصنف خود بھی لالچ میں آکر لٹ جاتا ہے ۔اس کہانی کا صرف ایک پہرہ گراف لکھ رہا ہوں تا کہ قاری اس کے ذائقے سے لطف اندوز ہو سکیں ۔اس پر بس یہ ہی کہنا ہے
باقی کہانی بھی ایسی ہی ہے ۔تو سنیں ۔کہانی کا ہیرو شیرازی مصنف سے سوال کرتا ہے کہ انکل سوچ کر بتائیں کہ جو شخص وعدے کرے اور اپنے وعدے کو ایفا نہ کرے ،جو پرائیویٹ طور پر کام کرے لیکن حکومت سے بیروزگاری الائونس لے ،جس ملک میں قانون کی بالا دستی ہو ،وہاں وہ کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزی کرے ،جو تندرست و توانا ہو لیکن حیلے بہانوں سے معذوری الائونس حاصل کرے ،جو قرضہ لے اور واپسی کا نام نہ لے ،جو انشورنش کا فراڈ کرے اسے آپ کیا نام دیں گے؟صرف ایک لفظ میں جواب دیں ۔یہ کہ کر اس نے مجھے مشکل میں ڈال دیا تھا،میرے ذہین میں کئی لفظ آئے ،منافق ،ریا کار ،دھوکہ باز،فراڈیا وغیرہ وغیرہ ،لہذا میں نے مناسب جانا کہ اپنی معذوری کا اعتراف اور اظہار کروں اور اس سے ہی جواب دریافت کروں چنا نچہ میں نے کہا ۔۔اس وقت میرے ذہین میں کوئی ایک ایسا لفظ ابھر نہیں رہا ہے ۔شیرازی نے مسکراتے ہوئے کہا ،میں بتاتا ہوں انکل اسے پاکستانی کہتے ہیں ۔ تجسس اس افسانے کا اہم ترین خاصہ ہے ۔جو قاری کی توجہ بٹنے نہیں دیتا ۔اور انجام چونکا دینے والا ہے ۔
“تصور کائنات کا ایک رنگ” وہ واحد افسانہ ہے ابھی میں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا کہ مبادا کتاب ختم نہ ہو جائے۔۔ ۔اس افسانوی مجموعے میں پردیس میں بسنے والوں کے مسائل ،مثکلات ،مصائب ،جذبات و احساسات ،ان کی اچھائیاں ،برائیاں مثلا اس افسانوی مجموعہ ٹھوکا میں کل پندرہ افسانے ہیں جن میں سے 14 افسانوں کے کردار ایسے ہی ہیں ۔واحد افسانہ ٹھوکا ہے جس کا کردار پاکستانی ہے ۔اور یہ کمال کا افسانہ ہے جو ہر لحاظ سے ،ہر معیار سے ،ایک ناقابل فراموش افسانہ ہے ۔ترکھان جن کو معاشرے میں کمی سمجھا جاتا ہے ۔اسے تضحیک سے ٹھو کا کہا جاتا ہے ۔ایک ترکھان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بن جاتا ہے اسے اس کا عملہ پیٹھ پیچھے ٹھوکا کے نام سے پکارتا ہے ایک دن وہ خود سن لیتا ہے تو بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے کے وہ اس نام کو اپنے نام کا حصہ بنا لیتا ہے ۔لکھاری خود بھی اپنی تحریر میں چھپا ہوتا ہے
اس افسانے سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے ۔کہ لکھاری کا اپنا واقعہ ہے ۔مذکورہ کتاب میں سب افسانے ایسے ہیں جن کو موجودہ عہد کے بہترین افسانے قرار دیا جا سکتا ہے ،ٹھوکا ،باشٹر اور وزیٹنگ کارڈ ۔ تو خاصے کی چیز ہیں ۔اور زلزلے کے بعدایسا افسانہ ہے جسے میں تو مدتوں فراموش نہ کر سکوں گا ۔افسانوں کے اس مجموعہ کا انتساب ۔۔محبت کے نام ہے جس کی تشریح ممکن ہی نہیں ۔علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ ایک بار جاوید اختر چودھری کے افسانوں کا مطالعہ ضرور کریں۔ میری طرف سے جناب جاوید اختر چودھری کو اتنی بہترین کتاب لکھنے پر مبارک باد۔
تحریر: اختر سردار چودھری