counter easy hit

ترک صدر کا گولن پر غصہ

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اپنے حریف فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم پر اپنا غصہ نکالا۔ ترک صدر نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہی اس سال جولائی میں ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کا تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ بغاوت ایک دہشت گرد تنظیم کی کارروائی تھی‘ اس دہشت گرد تنظیم کا سربراہ امریکہ کے شہر پنسلوانیا میں بیٹھا ہے۔ ترک صدر کا اشارہ حزمت تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن کی طرف تھا۔ فتح اللہ گولن ایک ترک سکالر اور شاعر ہیں۔ 2008 میں امریکہ کے فارن پالیسی میگزین نے انہیں ایک بااثر دانشور قرار دیا تھا۔ 2013 میں ٹائم میگزین نے دنیا کے ایک سو 100)) مؤثر ترین شخصیات میں شامل کیا تھا۔ فتح اللہ گولن ترکی کے صدر طیب اردگان کے ایک زمانے میں حلیف سمجھے جاتے تھے لیکن بعد میں وہ سیاسی حریف بن گئے۔ ترکی کے صدر نے جولائی میں ہونے والی فوجی بغاوت کا ذمہ دار فتح اللہ گولن کو ٹھہرایا ہے جبکہ فتح اللہ گولن اس کی تردید کرتے ہیں۔ فتح اللہ گولن اپنی تحریک جسے ’’گولن تحریک یا حزمت موومنٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کو ایک سماجی تحریک قرار دیتے ہیں۔ اس تحریک کا مقصد دنیا میں مختلف مذاہب اور لوگوں کے درمیان مکالمہ کے ذریعہ قربت پیدا کرتا ہے۔
جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر نے امریکہ کو بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ میں قیام پذیر فتح اللہ گولن نے ترکی کی فوجی بغاوت کا منصوبہ تیار کیا تھا لیکن امریکی حکومت نے فتح اللہ گولن کو امریکہ بدر کرنے سے انکار کیا ہے جس کے بعد صدر طیب اردگان امریکہ اور مغربی ملکوں سے خاصے ناراض ہیں اب وہ کھلم کھلا یہ کہہ رہے ہیں کہ ترکی میں جمہوریت کے خاتمے کے لئے فوجی بغاوت کو امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ ترک صدر فتح اللہ گولن کی حزمت موومنٹ کے حامیوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ صدر اردگان نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ فتح اللہ گولن پاکستان کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ترکی میں جو ہزاروں افراد گرفتار ہیں ان میں گولن اور ان کے حامیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ترکی میں فتح اﷲ گولن کی حمایت کرنے والے کئی اخبار اور ٹیلی ویژن چینل بند کردئیے گئے ہیں اور کئی حکومت مخالف صحافی جیل میں ہیں۔
فتح اللہ گولن نے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں سکول بھی قائم کئے ہیں۔ پاکستان میں بھی پاک ترک سکول تنظیم کے تحت انہوں نے کئی شہروں میں سکول قائم کئے ہیں۔ ان سکولوں میں ترک اساتذہ کے علاوہ پاکستانی بھی پڑھاتے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ یہ سکول اچھی تعلیم دیتے ہیں۔ راقم کو اسلام آباد میں قائم پاک ترک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا ہے لیکن اب ان سکولوں کے ترک منتظمین اور ترک اساتذہ کو حکومت نے پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ چار سو سے زیادہ ترک ماہرین تعلیم درس و تدریس سے منسلک ترکوں کو پاکستان سے فوری طورپر نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پاک ترک سکول سسٹم سے وابستہ ترک اساتذہ اس خدشہ کا اظہار کر رہے تھے کہ انہیں جلد ہی پاکستان بدر کر دیا جائے گا۔ جولائی میں ترکی کی فوجی بغاوت کے بعد ترک وزیر خارجہ جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے پاکستان میں اپنے ہم منصب اور دوسرے حکام سے ملاقات کر کے یہ مطالبہ کیا تھا کہ گولن کے سکول بند کر دیئے جائیں اور اس کے جو حامی یہ سکول چلا رہے ہیں انہیں پاکستان سے نکال دیا جائے یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ پاک ترک سکولوں سے وابستہ ترکوں کو گرفتار کر کے ترک حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا۔ حکومت نے صدر طیب اردگان کے دورہ پاکستان سے پہلے فتح اﷲ گولن کے ان حامیوں کو ملک سے چلے جانے کے لئے کہا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ترک صدر نے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر پاکستان کی طرف سے ترک پارلیمنٹ اور منتخب ترک حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ جب صدر اردگان ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اور پاکستان کی اس بغاوت کے بعد ترک حکومت اور پارلیمنٹ سے اظہار یکجہتی کا شکریہ ادا کر رہے تھے تو ارکان پارلیمنٹ نے اس موقع پر بڑے زور سے ڈیسک بجاکر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ترک صدر نے دہشت گردی کی مذمت کی اور داعش اور آئی ایس ایسی تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ داعش کو جو اسلحہ مل رہاہے وہ مغربی ملکوں سے مل رہا ہے۔ ترکی خود اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ شام کے مہاجرین نے ترکی میں پناہ لے رکھی ہے۔ دنیا کی کئی انتہا پسند تنظیموں کے حامی ترکی میں موجود ہیں۔ ترکی نے کردوں کی جماعت کے پی پی کے ساتھ بھی تصادم کی فضا پیدا کر دی ہے۔
صدر طیب اردگان کا خطاب دو بجے ہونا تھا لیکن یہ خطاب ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اس خطاب سے قبل جب مسلح افواج کے سربراہ سپیکر گیلری میں پہنچے تو بعض ارکان پارلیمنٹ لپک لپک کر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ہاتھ ملانے لگے۔ بعض خواتین ارکان اسمبلی بھی جنرل راحیل شریف سے بات چیت کرنے کے لئے سپیکر گیلری کے قریب پہنچ گئیں اور انہوں نے آرمی چیف سے گپ شپ کی۔ ایک خاتون رکن آرمی چیف سے کچھ کہنے کے لئے سپیکر گیلری میں ان کے پاس جا پہنچیں۔ صدر اردگان کے خطاب کے بعد جب راقم نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ترک صدر کے خطاب پر ردعمل جاننا چاہا تو امریکی سفیر ترک صدر کے خطاب پر ’’نوکمنٹس‘‘ کہہ کر چلے گئے جبکہ روس کے سفیر ایلکسی دیدوف نے ترک صدر کی تقریر کو بہترین تقریر قرار دیا۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website