ترکی میں ناکام بغاوت کا ایک سال مکمل ہونے پر صدر طیبب اردوان کے خصو صی خطاب کے علاوہ ریلیاں اور دیگر تقریبات کی تیاریاں جاری ہیں۔
بغاوت کے الزام میں ترکی میں مزید 7 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین برطرف کر دیئے گئے ۔غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق برطرف ملازمین میں 3ہزار 303 پولیس اہلکار شامل ہیں جبکہ
342 ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کےرینک میں تنزلی بھی کی گئی ہے۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے ایک سال مکمل ہونے پر آج تقریبات منائی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں ترک پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس ہوگا۔ اجلاس میں شرکت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان استنبول جائیں گے اور یادگار باسفورس پل ، جسے اب شہدا پل کہا جاتا ہے پر شہدا مارچ میں شرکت کریں گے۔
گزشتہ سال ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے دوران ترکی کی پارلیمنٹ پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ بمباری ، شیلنگ اور فائرنگ سے پارلیمنٹ کی عمارت کے ایک حصے کو نقصان بھی پہنچا تھا۔ ٹھیک اسی وقت پر صدر اردوان پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس ناکام فوجی بغاوت میں شہید ہونے والوں کی یاد میں صدارتی محل کے باہر ایک یادگار بھی قائم کی گئی ہے جس کا آج افتتاح کیا جائے گا۔ آج سے ایک سال پہلے ترک فوج، بحریہ اور فضائیہ کے ایک دھڑے نے صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ اس مسلح، خونی بغاوت میں 180 کے قریب ترک شہری شہید ہوئے تھے۔ اس دوران اپنے صدر کی ایک اپیل پر بہادر اور نڈر ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر اس فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔ پھر دنیا نے یہ مناظر بھی دیکھے کہ باسفورس کا وہ پل جہاں فائرنگ کرکے نہتے شہریوں کو شہید کیا گیا تھا ،ٹھیک اُس ہی مقام پر باغی فوجیوں نے پولیس کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔
عالمی طاقتوں اور میڈیا نے ابتدا میں ترک فوج کے ایک دھڑے کی بغاوت کو تمام ترکی کی خواہش ظاہر کیا تھا لیکن ترک عوام کی بہادری نے انہیں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔ ترک حکومت اس فوجی بغاوت کا الزام امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن پر عائد کرتی ہے ، صدر اردوان کا موقف تھا کہ امریکا کی پشت پناہی میں فتح اللہ گولن نے جمہوری حکومت کے خلاف سازش کی۔ ترک حکومت نے بغاوت پر قابو پاکر ایمرجنسی نافذ کی تھی جو آج بھی برقرار ہے، اس دوران باغیوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا گیا، پچاس ہزار کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا، مختلف شعبوں میں کام کررہے ایک لاکھ افراد کو بغاوت کا حصہ بننے کے شبہے میں ملازمت سے برطرف بھی کیا گیا۔