تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
جب طیب اردگان کہتے ہیں کہ ترکی، ترکی نہیں بلکہ بوسنیا، صومالیہ، فلسطین، شام، پاکستان، عراق،لیبیا، مصر، الجزائر سبھی ہے تو وحدتِ امت کی اس پکار پر ترک عوام فرطِ اشتیاق سے اپنے لیڈر کے ہمرکاب نظر آتے میڈیا کے سینے پر مونگ دلتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی آئی ایم ایف کے قرضوں سے بھی آزاد ہو چکا ہے، دنیا کی پانچویں بڑی ترقی کرتی معیشت اس وقت ترکی کی ہے۔ مہنگائی کیروک تھام کیلئے بیشتر اقدامات کروئے کار لائے گئے ہیں۔عوام کو بڑے پیمانے پر فلاحی سہولتیں میسر ہیں۔ ہرصوبے کی اپنی یونیورسٹی ہے اور ملک بھر میں یونیورسٹیوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہیں۔سکول میں کتابیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔کردوں کے حقوق کا تاحال سب سے زیادہ تحفظ کرنے کا سہرہ بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ انگریزوں کے اس طنز کے جواب میں کہ ترک چالیس سال لگے رہیں تو بھی خود اسلحہ نہیں بنا پائیں گے، ترکی نے پانچ سال میں ہی اسلحہ سازی شروع کر دیا ۔طیب اردگان پہلے غیر افریقی رہنما تھے جنھوں نے صومالیہ کا دورہ کیا۔ غزہ میں خالد مشعل اور اسماعیل ھنیہ سے ملے۔انٹرنیشنل فورمز پر اسلاموفوبیا کے بارے میں کھل کر اپنا موقف بیان کیا۔اسرائیل کے خلاف سب سے متحرک مسلمان حکمران یہی نظر آتے ہیں۔ پاکستان سمیت لیبیا، مصر، تونس، عراق، شام ہر ایک کیساتھ مشکل وقت میں ترکی نے انکو بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے اور بات زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رکھی بلکہ عملاََ کر کے بھی دکھایا ہے۔
طیب اردگان کو سیاسی حریفوں کا سامنا ہے ایسا نہیں مفامت کے نام پر دن ٹپاؤ پالیساں بنائی جاتی ہوں ۔اپوزیشن میں بیٹھنے والی نام نہادCHP پارٹی جس پر لبرلزم کا بھوت سوار ہے،ویسے ہی سیخ پا نظر آتی ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں مذہب کا عمل دخل دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے! تو دوسری طرف کردوں کے حقوق کی علمبردار BDP جو ایک سوشلسٹ پارٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہے، اسی بات پر اردغان کی AK سے نالاں معلوم ہوتی ہے۔ان کی طرح ایک تیسری جماعت TKP ہیجو بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹی ہے اور سرے سے خالق کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی عاری ہے، بنا بریں یہ تمام لادین فرقوں کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔اور تینوں جماعتوں نے معرکہ ِ شام میں روز ِ اول سے ہی بشار الاسد کی انسانیت سوز بربریت اور حیوانیت سے قطع نظراسکی غیر مشروط حمایت کی ہے۔پھر Halk Cephesi اور DHKPایسی مسلح کمیونسٹ تنظیمیں بھی ہیں جن پر تخریبی کارروائیوں کی بنا پرپابندی عائد کی گئی ہے۔
خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط سے لیکر اب تک ترک قوم نے طویل عرصہ تک آنسوؤں اور لہو سے انقلاب کی داستانیں رقم کی ہیں جب کہ ان پر کمال اتا ترک نامی شیطان مسلط کر دیا گیا تھا جس پر اللہ کی ایسی پھٹکار تھی کہ اس نے اپنے نام سے مصطفی الگ کر ڈالا تھا! حجاب پر پابندی،داڑھی رکھنے پر ممانعت، سرِ عام شراب کی دستیابی جیسے قبیح افعال اور مغربی آقاؤں کے آگے جی حضوری اسکا خاصہ تھی! کرنا خدا کا ایسا ہوتا ہے کہ شفاف الیکشن کے ذریعے اردگان بر سرِ اقتدار آتے ہیں۔ترکی کے اپر کلاس حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے کہ انکی آنکھوں کے سامنے ایک دینی مزاج رکھنے والا ‘دقیانوس’انسان ایوان میں بیٹھا ان پر حکومت کر رہا ہے! حالانکہ انہی آنکھوں پر چڑھی پٹی اتار کر اگر یہ منصفانہ جائزہ لینے کا ظرف رکھتے ہوں تو اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ معاشی اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے اردگان تمام سابق وزرائے اعظم کو مات دے گئے ہیں!۔
حال ہی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ حق اور باطل کی تفریق واضح تر ہو کر سامنے آگئی ہے۔تقسیم سکوائر میں ایک پارک ہے جو 1993 میں عثمانیہ دور کی ایک عالیشان فوجی چوکی کو ختم کر کے بنایا گیا تھا۔وہاں تقریباََ بارہ درخت موجود ہیں۔حکومت نے ارادہ ظاہر کیا کہ ان کو کاٹ کر ایک میوزیم اور شاپنگ سنٹر بنا دیا جائے۔ اتنا کہنا تھا کہ درختوں کے غم میں تمام اپوزیشن جماعتیں ہیں جو اس مسئلے کی آڑ میں اپنی بھڑاس نکالنے کی خواہاں ہیں۔سامنے آگئی۔
کون بتائے گا ؟ کہ اشجار پر ہونے والے اس ‘ظلم’ پر سراپا احتجاج بن جانے والے انسانیت کی یہ علمبردار اس وقت کہاں تھے جب یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طالبات کو سر ڈھانپنے اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ تھی؟جب انہیں حجاب کی جگہ وگ لگانے پر مجبور کیا گیا تھا تو اس وقت ایمنسٹی انٹرنیشنل،یورپی یونین اور میڈیا تک کس نے رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی؟ماوی مرمارا جہاز پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں جو جانیں ضائع ہوئیں، اس وقت ظلم کیخلاف آواز اٹھانے میں کو نسا امر مانع تھا؟ اس وقت تو کسی نے Occupy Wall Street کو مدد کیلئے نہیں پکارا تھا!اب Bruce Willis٫ Occupy Wall St سمیت تماتر پروپیگنڈا مشینری حرکت میں آچکی ہے اور ترکی کے داخلی معاملات میں مخل ہونے کو بے قرار ہے۔ یہ عناصر اس واشگاف حقیقت کو آٹھ سال سے ہضم نہیں کر پائے کہ ایک مذہبی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل فرد انکا وزیرِ اعظم بن چکا ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ اسکی مقبولیت کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ترکی کے ‘قصرِ ابیض’ کی خاتونِ اول حجاب استعمال کرتی ہیں، حکومتی میٹنگ میں شراب نوشی ممنوع ہے۔ملک بھر میں شراب کے اڈوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔خواتین کیلئے اعلی تعلیم کا حصول اب خواب نہیں رہا۔
دنیا میں بسنے والے تمام لوگ تین اقسام کے ہوتے ہیں، اول مسلم دوئم غیر مسلم سوئم منافق سادہ ترین لفظوں میں سُنی وہابی دیوبندی وغیرہ وغیرہ مسلم ہیں جبکہ یہود و نصری ہندؤں ،آگ بتوں وغیرہ کی پرستش کرنے والے سب غیر مسلم ۔ سوئم اقسام ہے منافقین کی یہ لوگ اوپر سے مسلمان اور اندر سے غیر مسلم ہیں۔
ترکی کے لبرل کمیونسٹ اور سوشلسٹ حلقے طیب اردگان کی اسلام پسند پالیسیوں کے خلاف ہیں اور یہ بغاوت فوج میں موجود اسی طبقے نے کی ہے، طیب اردگان نے اسلام پسندی کے باوجود ترک معاشرے کو روائتی مذہبی معاشرے میں تبدیل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ترکی کی معاشرت آج بھی لبرل ہے اور ایسا کوئی حربہ اختیار نہیں کیا گیا جو طیب اردگان یاکمال اتاترک کے نظریات کو مد مقابل لاسکے۔ طیب اردگان نے اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ ہمدردی اور دہشت گردی کے خلاف جو موقف اپنا رکھا ہے، اس کے تضاد کی وجہ سے ترکی میں بے چینی پائی جاتی ہے۔حالیہ دنوں میں ترکی کے اندر دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں، ان کی وجہ سے بھی طیب اردوان پر تنقید ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے۔
کچھ سوالات پیدا ہو گئے ہیں جن کا جواب صرف آنے والہ وقت ہی دے سکے گا؟
ترکش فوج کی اعلیٰ قیادت کو بغاوت کا علم کیوں نہ ہوا؟ 2 اس بغاوت میں صرف فوجی عوام کے ہاتھوں زخمی ہوئے، عوام کی جانیں نہیں گئیں۔ ؟3فوجی جن ٹینکوں پر بیٹھ کر اقتدار پر قبضے کے لئے آئے، جب عوام ان کے آگے لیٹے تو وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے، حالانکہ مصر کی بغاوت میں فوج نے جو کچھ کیا تھا، وہ سب نے دیکھا.4 فوج کے سپہ سالار اور جرنیل ایک طرف ہوں اور جونیئر رینک کے افسران یونٹوں سے ٹینک بھی نکال لائیں اور ہوائی اڈوں سے ایف۔16 بھی اُڑالیں؟5 یہ کام اتنے منظم انداز سے کریں کہ فوجی قیادت اور حکومت کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ ؟وغیرہ وغیرہ۔
طیب اردگان لاکھوں کے مجمع سے بھی خطاب کرتے تو انہیں ایسی طاقت میسر نہ آتی جو اس ناکام بغاوت کے بعد ملی ہے۔ ترک عوام کا جمہوریت اور طیب اردوان کے لئے سر پر کفن باندھ کر سامنے آنا صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ فوج اپنے ٹینکوں سمیت سامنے آ جاتی۔ سویہ واقعہ ہوا اور اس نے بڑی کامیابی سے کئی گھنٹے تک دنیا کو اپنی گرفت میں لئے رکھا۔ معاملہ چاہے کچھ بھی ہو، دنیا کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ طیب اردوان کی پالیسیوں کو ترک عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے، اس لئے کسی طالع آزما کو مہم جوئی کی جرأت نہیں کرنی چاہیے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ترک عوام ا ب صرف جمہوریت چاہتے ہیں اور انہیں طیب اردگان کی قیادت پر مکمل اعتماد ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بغاوت کے بعد لاکھوں ترک عوام استنبول اور انقرہ کی سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے جمہوریت کو بچا لیا۔
یہ ترکی اور اسلام دشمنوں کی چالیں ہیں جب اسلام کے دشمنوں نے دیکھا کہ اللہ پاک نے ان کی چالوں کے بدلے میں بہتر تدبیر فرمائی ہے۔۔”۔ جیسا کہ اللہ بہتر تدبیر فرمانے والہ ہے ” تو اپنی بے بسی کا رونا دھونا شروع کرنے کی بجائے ترکی میں منتخب حکومت کی حمایت کا اعلان شروع کر دیا۔۔۔۔ ویلڈن طیب اردگان دنیا اور آخرت کی کامیابی کی کنجی ” دین اسلام ” ہے ۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ طیب اردگان اسلام کا سچا سپائی ہے۔ اور اس فوجی بغاوت کے پیچھے چھپے محرکات زیادہ دیر پردہ سکرین سے اوجھل نہیں رہ سکیں گئے انشااللہ۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا