تحریر: علی عمران شاہین
سب سے بڑے مذہب ہونے کے دعویدار عیسائیت کا سب سے بڑے پیشو پوپ کہلاتا ہے۔ پوپ لاطینی زبان کے لفظ (پاپاز Pappas) سے نکلا ہے۔ یہ لفظ اس کے بعد لاطینی معاشرے ، پھر مغرب اور آج ساری دنیا میں بچے کے اپنے باپ کو پکارنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پوپ اپنے اس مذہبی پیشوا ‘سینٹ پیٹر’ کا قائم مقام کہلواتا ہے جس کے بارے میں عیسائی دنیا میں مشہور ہے کہ مسیح موعود نے اسے جنت کی چابیاں دے رکھی ہیں۔
عیسائی دنیا چرچ کے پیشوا کو” فادر ”کہتی ہے۔ یہ اصطلاحات اس لئے اختیار کی گئیں کہ کوئی شخص ان کے سامنے معمولی گستاخی کی بھی جرات و جسارت نہ کر سکے۔لیکن 12 اپریل 2015ء کو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ کیتھولک عیسائی دنیا کا مذہبی سربراہ پوپ فرانسس آرمینیا کے دورے پر پہنچا تو وہاں کے صدر اورہم مذہب مذہبی پیشوائوں کی موجودگی میں اس نے خطاب میں کہا کہ پہلی جنگ عظیم میں آرمینیا کے لوگوں کی جو ہلاکتیں ہوئی تھیں ،وہ خلافت ترکیہ کی جانب سے قتل عام تھا۔ اس بیان کا سامنے آنا تھا کہ ترکی نے عیسائیت کے مرکز ویٹی کن سٹی (جو دنیا کی سب سے چھوٹی خود مختار ریاست بھی ہے) کے اپنے ملک میں موجود سفیر کو طلب کر کے پہلے وضاحت مانگی۔ پھر ویٹی کن سٹی سے اپنا سفیر ہی واپس بلا لیا کہ پوپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی پوپ کے حوالے سے اس طرح کے جذبات کا اظہار کرے گا،یہ تو کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، لیکن ترکی نے تاریخ ہی الٹ دی۔
یہ وہی ترکی ہے جہاں اس واقعہ سے محض 3 دن پہلے سب سے بڑے شہر استنبول میں واقع ایا صوفیہ میں 85 سال بعد قرآنی تلاوت کی آواز گونجی۔ یہ ایا صوفیہ کیا ہے… ؟استنبول کے ساحل پر واقع چار بلند و بالا میناروں اور ایک بڑے مرکزی گنبد میں گھری عمارت، جو صدیوں خانہ خدا تھی تو85 سال سے عجائب خانہ ہے۔یہاں جو لوگ سیر کیلئے آتے ہیں ،ان میں تقریباً ہر سیاح اسے دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اسی لحاظ سے گزشتہ سال اس کا نمبر دوسرا تھا اور 33 لاکھ لوگوں نے اس کی سیر کی۔
یہ 1453 کی بات ہے جب تاریخ اسلام کے ایک عظیم جرنیل سلطان محمد الفاتح نے جرأت و شجاعت کی ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے اس زمانے کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول کو فتح کیا تھا۔ (یہ وہی شہر ہے جس پر سب سے پہلے حملہ کرنے والوں کو جنت کی بشارت خود امام الانبیاء محمد کریمۖ نے اپنی زبان اطہر سے سنائی تھی) سلطان محمد الفاتح نے فتح کے بعدایا صوفیہ کے چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا تھا اور پھر یہاں سے اذانیں بلند ہونے لگیں۔ ایاصوفیہ پر سب سے برا وقت تب آیا جب 1931ء میں اسلام کے ایک بہت بڑے دشمن ،سفاک کمال اتاترک نے پہلے تو اس کی تالہ بندی کی اور پھر 4 سال بعد 1935ء میں اسے عجائب گھر قرار دے کر سیاحوں کیلئے کھول دیا۔ یوں 85 سال گزرے ،کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہاں ایک بار پھر اللہ کا نام گونجے گا ۔ حالات نے کروٹ لی اور اب اسی ترکی میں جہاں کمال اتاترک نے مساجد کو تالے لگا دیئے تھے، سرکاری سرپرستی میں ہر طرف لائوڈ سپیکرز پر اذانیں بلند ہو رہی ہیں۔ حکومت ملک بھر کی لگ بھگ 85 ہزار سے زائد مساجد کی خود نگران ہے۔ خوش الحان موذن سرکاری محکمہ کی جانب سے تعینات ہوتے ہیں۔ حال ہی میںترکی سے ہو کر آنے والے ایک صحافی و دانشور نے بتایا کہ آج کے ترکی کی مساجد کے سبھی انتظامات اتنے عالی شان ہیں کہ دل کھل اٹھتا ہے۔ رمضان میں افطار اور تراویح کا اہتمام حکومت کی جانب سے ہوتا ہے۔عیدین میں یہاں چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ترکی کی 99.2 فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن 1923ء میں خلافت کے خاتمے کے بعد جب یہاں اسلام پر ہر پہلو سے سخت پابندیاں عائد کر کے ملک کو مکمل لادین بنانے کا طویل سلسلہ شروع ہوا تو اس کے خلاف مزاحمت بھی کچل دی گئی تھی۔ اب یہاں 80 سال بعد باپردہ خواتین کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اس بدلتے منظر نامے کو دیکھ کر دین دشمن عناصر کوئلوں پر لوٹ رہے ہیں اور وہ دن رات یہی قلابے ملا رہے ہیں کہ رجب طیب اردوان اور ان کی پارٹی نے ملک کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، عوام ان کے مخالف ہو چکے…یہ اب گئے کہ اب گئے، لیکن مشیت الٰہی کچھ اور نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ ترکی کو ایک بار پھر اسلام کی راہ پر گامزن کرنے والی پارٹی پہلے سے ہر روز مضبوط تر ہے۔آج کا ترکی تو اپنا سب کچھ امت مسلمہ اور خصوصاً بے یارومددگار مسلمانوں پر لٹانا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ دور کیوں جائیں… آج کا ترکی دنیا میں سب سے زیادہ غیر ملکی مہاجرین اہل شام کا عرصہ 4سال سے سب سے بڑا میزبان ہے جس کی مدد کیلئے اقوام متحدہ کو بھی ہوش نہیں۔
ترکی کی شام کے ساتھ 979 کلو میٹر طویل سرحد ملتی ہے۔ مارچ 2011 سے شام میں صدر بشار الاسد کے مظالم کا شکار شامی عوام جان بچانے ترکی میں داخل ہونے لگے تو ترک حکومت ان کی خدمت میں مصروف ہو گئی۔ شام کی سرحد پر ترکی کے پرفضا شہر غازنیپ میں بھی ایک ایسا مہمان کیمپ ہے۔ دارالحکومت انقرہ سے 375 کلو میٹر دور غازنیپ چھوٹا سا شہر ہے خشک میوہ جات کا مرکز ہے۔ اس کے ایک طرف شام سے متصل بلند پہاڑیاں، تو دوسری طرف تاریخی دریائے فرات ہے جس نے کتنے طوفان دیکھے۔ اس نے انبیاء اور صحابہ کے قافلوں کی پیاس بجھائی۔ سکندر اعظم نے اس دریا کو پار کیا لیکن پھر واپسی نصیب نہ ہوئی۔ اسی دریا کے کنارے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق نے رومیوں شکست فاش دی تھی۔یہاں ترک عوام نے مہاجرین کو مہمان کا درجہ دے رکھا ہے شاید اس لئے بھی کہ ترک سرزمین پر پیغمبر اسلامۖ کی مدینہ میں میزبانی کا شرف حاصل کرنے والی عظیم شخصیت حضرت ابو ایوب انصاری دفن ہیں۔
کیمپ میں 5 ہزار سے زائدمہاجرین رہائش پذیر ہیں،جن کے کنٹینر جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ان میں ایک بیڈ روم، کچن، بیت الخلا، اور ایک چھوٹا کمرہ شامل ہے۔ ٹھنڈے و گرم ماحول کیلئے ایئر کنڈیشنر تک کی سہولت ہے۔ ہر فرد کو 85 ترکی سکہ لیرا (50پاکستانی روپے کے عوض ایک لیرا) ہر ماہ خرچ کے لئے بذریعہ اے ٹی ایم کارڈ دیا جاتا ہے۔ کیمپ میں سوپر مارکیٹ بھی ہے جہاںسے اے ٹی ایم کے ذریعے سے سامان خریدا جا سکتا ہے۔ کپڑے دھونے،استری اور حجام تک کی مفت سہولت ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لئے جدیدٹیکنیکل سکولز ہیں۔ ہسپتال بھی ہے تو تفریحی مرکز بھی۔نماز کے لئے وسیع اور صاف ستھری مسجد بھی بنائی گئی ہے۔یہاں رہائش پذیرسب کی ایک جیسی کہانی ہے۔ بشار الاسد نے اپنے اقتدار کے لئے اپنے ہی عوام کو تباہ و برباد کر ڈالا تو اب آدھے اہل شام بے گھرہیں۔
دمشق کے ایک پناہ گزین صحافی ایمن صالح بتانے لگے کہ دمشق جو صدیوں عالمی اقتدار کا مرکز رہا، اب بھوتوں کا شہرہے۔ بشار الاسد نے آزادی چاہنے والے عوام پر کیمیائی ہتھیار استعمال کئے۔ وہ جس اخبار سے وابستہ تھے، اس کا دفتر بمباری میں تباہ ہو گیا۔
جانیں بچانے کے لئے بھاگنے والے بھی جگہ جگہ اب بھی مررہے ہیں توانکی نعشوں کو کفن دینے والا نہیں۔ شام کے ایک سرحدی گائوں کے عمر عرفات ایک سکول ٹیچر تھے۔ بمباری سے سارا گائوں تباہ ہوگیا۔ شامی افواج نے اسے کربہت مارا لیکن اب تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کاآخر قصور کیا تھا؟
گزشتہ چار سال کے دوران میں شامی پناہ گزین خواتین نے 46000 بچوں کو جنم دیا۔ شامی مہاجرین کے کیمپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی عالی شان ہوٹل کے کمرے میں ہوں۔ یہاں تقریباً 90 فیصد پناہ گزین سنی مسلمان ہیں۔ 10 فیصد بشار الاسد کے طبقے علوی، یزیدی (غیر مسلم طبقہ) اور عیسائی ہیں۔ مالدار شامیوں نے ترکی میں اپنے کاروبار قائم کر لئے جن میں علوی اور یزیدی بھی شامل ہیں۔ ترک حکومت نے سب کے لئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔شریعت کے لحاظ سے مہمان تو تین دن کا ہوتا ہے جس کے بعد صدقہ ہے جتنی توفیق ہو۔ترکی یہ صدقہ کئے جا رہا ہے تو اب یہی ترکی پاکستان کا سب سے بہترین دوست اور سعودی عرب کا بھی محافظ بن کر سامنے آیا ہے۔