اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پاکستان اور ترکی دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ یہ بات پاکستان کے ترکی میں سفیر سائرس سجاد قاضی نے ترک خبررساں ادارے کی اردو زبان میں ویب نیوز کے اجراء کی تعارفی تقریب سے اپنے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہی۔انھوں نے کہا کہ میں ایک فاضل اجتماع سے مخاطب ہوں جو آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات اور اس میں میڈیا کے کردار پر بات کر رہا ہے۔میں جب پاکستان میں طالب علم تھا ،اس وقت میرے کئی ترک طالب علم میرے ساتھ میرے کلاس فیلو تھے۔ان کاکہنا تھا کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ میڈیا ان صلاحیتوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرتا ہے جس پر توجہ مبذول کر کے ہمارے تجارتی ، سیاسی، سفارتی اور برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ ملتا ہے۔ اسی طرح میڈیا ہمارے ثقافتی اور ملکوں کے روابط کو آپس میں بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں ترک خبررساں ادارے “ترکی اردو”سوشل میڈیا کے کردار کو بھی سراہنا چاہوں گا جو کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کے مضبوط پہلووں کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح ترکی اردو ویب سائٹ کے اجرا کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ترکی اردو دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ ترکی اردو کی طرز پر پاکستان ترکی سوشل میڈیا کا بھی اجرا ہو تاکہ ہماری کوششوں کو مزید تقویت ملے۔ ام لا لپما تجا لپاگرچہ ہماری دو جدید ریاستوں یعنی پاکستان اور ترکی کے سفارتی تعلقات صرف سات دہائیوں پر محیط ہیں لیکن ہمارے لوگوں کے برادرانہ تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔ ہمارا مشترکہ مذہبی، ثقافتی، روحانی اور لسانی ورثہ وقت اور جغرافیائی حدود کی قید سے آزاد ہے۔ ایک شاندار ماضی کے علمبردار پاکستان اور ترکی عالمی برادری کے اہم رکن ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ترکی ہمیشہ سے پاکستان اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی ہر سطح پر تائید کرتا ہے اور ترکی پاکستان کے سب سے مضبوط حامیوں میں سے ایک ہے۔ اس غیر مترلزل حمایت کا بھرپور اعادہ ترک وزیر خارجہ میلوت چاوش اولو کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران بھی دیکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ بالکل اسی طرح پاکستان بھی مسئلہ قبرص کے منصفانہ اور پُرامن حل کے لئے برادر ملک ترکی کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے ترکی میں 15 جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے دوران ترک عوام اور ترک حکومت کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگرچہ ہمارے تعلقات دنیا کے لئے قابل رشک ہیں لیکن بدقسمتی سے ان بہترین سیاسی اور سفارتی تعلقات کی عکاسی ہمارے تجارتی تعلقات میں نہیں ہو رہی ہے۔ ہماری دو طرفہ تجارت کا حجم صرف 80 کروڑ ڈالر ہے جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود صلاحیت کے مطابق نہیں ہے۔ ہم دونوں ممالک تجارت کو بڑھانے کی از حد کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ترک سرمایہ کاری کی رفتار گو تسلی بخش ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان ترکی سرمایہ کاری کا جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور 100 سے زیادہ معروف ترک کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کا شعبہ ہمارے باہمی روابط کی اہم بنیاد ہے۔ اس وقت ترکی کی مختلف جامعات میں دو ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ ترک طلبہ دیکھیں۔ میں جب پاکستان میں طالب علم تھا یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے اس وقت میرے کئی ترک طالب علم میرے ساتھ میرے کلاس فیلو تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات میں ایک اور روشن پہلو ہمارے ثقافتی بندھن ہیں جو کہ دن بدن مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سب ترکی کے مشہور زمانہ ارطغرل غازی اور یونس ایمرے سے واقف ہیں۔ ہمارا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ہمارے پاس باصلاحیت لوگ موجود ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں زیر بحث عبدالرحمان پشاوری یا لالا ترکی پر مبنی ڈرامہ سیریل کو جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ باہمی مشترکہ تفریحی مواد کی تیاری سے ہمارا دوسرے ممالک پر تیار کردہ مواد پر انحصار کم ہو جائے گا۔