تحریر : صہیب سلمان
ترکی کے سیاسی نظام میں فوج کو جو منفرد کردار حاصل ہے وہ فوج کا جمہوری کردار ہے آپ کو تُرکی میں فوج کے کردار کو سمجھنے کیلئے ما ضی میں جانا ہوگا۔ تُرکی کی سیاست میں فوج کے کردار کا آغاز مصطفےٰ کمال پاشا اور عظمت انونو کے ادوار میں ہوا دونوں رہنماء تُرکی کے بلند قامت فوجی رہنماء تھے جنہوں نے تُرکی کی آزادی اور اس کی مظبوط بنیادوں کو استوار کرنے میں اہم کردار اداکیاتھا۔ تُرکی کی سیاست میںفوج کے جمہوری کردار کی سب سے انوکھی اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فوج کو آئینی طور پر ملک میںمارشل لاء لگانے کا حق حاصل ہے۔تُرکی کی سلامتی کونسل تُرکی کا سب سے اعلیٰ حکومتی اور فیصلہ ساز ادارہ ہے جو تُرکی کے مستقبل کے کردار اور قسمت کا فیصلہ کرتاہے۔
مصطفےٰ کمال پاشا اور عظمت انونو جیسے تُرک جرنیلوں نے اصلاحات کے ذریعہ تُرکی میں جدت پسندی کو متعارف کروایا۔تُرکی میں سیکولرازم کی بنیاد تُرک فوج نے رکھی تھی کمال اتاتُرک کی وفات کے بعد اس بات کا امکان تھا کہ تُرکی میں اسلام پسند قوتیں متحد ہوکر تُرکی کے سیکولر تشخص کو دوبارہ اسلامی رنگ دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 1950اور 1957کے الیکشن میں حکومتی پارٹی کی شکست کے بعد تُرکی میں ڈیمو کریٹک پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی جس نے تُرکی میں کمال ازم کو پس پشت ڈال کر اسلام کے متعلق لچکدار رویہ اپنانا شروع کردیا۔یہ تبدیلی تُرکی فوج کو ہرگز قابل قبول نہ تھی اور 1960ء میں جنرل جمال گرسل نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء لگادیا۔
1961ء میں جنرل جمال گرسل نے آئین میں اسلامی کونسل کے نام سے ایک ادارہ متعارف کروا یا جس کی روح سے تُرک فوج کو تُرکی کے سیاسی نظام میں آئینی کردار حاصل ہوا۔ 1973ء میں صدارتی انتخابات میں فوج اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک تنازعہ کھٹرا ہوگیا۔فوج صدارتی انتخاب میں جنرل فاروق گرولر کو صدر بنانا چاہتی تھی جبکہ سیاسی جماعتیں اپنا صدر منتخب کرنا چاہتی تھیں ۔تُرک فوج نے پنا لویا منواتے ہوئے جنرل فاروق کی جگہ جنرل فہر کورو کو صدر منتخب کروایا۔ 1977ء کے انتخابات میں سلیمان ڈیمرل کی جسٹس پارٹی نے حکومت بنائی لیکن حالات خراب ہونے کی وجہ سے مارشل لاء لگادیا۔
1982 میں جنرل کنعان ایورن نے ایک نیا آئین متعارف کروایا اس آئین کی روح سے تُرکی میں فوج کے سیاسی اور آئینی کردار میں مزید اضافہ ہوا۔ خلافت عثما نیہ کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک فوج کا کنٹرول ہے وقتی طور پر طیب اُردوان آواز پر عوام باہر ضرور نکلی ہے لیکن فوج کی گرفت ختم نہیں ہوئی ۔فطری طور پر جس چیز کو جتنا دبا یا جائے وہ اُتنی ہی اُبر تی ہے اس لئے طیب اُردوان کو چاہئے کہ فوج کے جرنیلوں اور فوجیوں کو سزا دینے کی بجائے اُن کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرے کہ اُنہوں نے بغاوت کیوں کی اس کے پیچھے کیا بات تھی اور بغاوت کی نوبت کیوں آئی۔
بجائے اس کہ تُرکی کو ترقی کے راستے سے ہٹانا اور فوج جیسے اعلیٰ ادارے کو تباہ کرنا اچھی بات نہ ہوگی۔طیب اُردوان کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چائیے کہ اگر اس بغاوت کا مثبت حل نہ نکالا گیا یہ خطرہ طیب اُردوان کے سر منڈ لاتا رہے گا۔ آئیے اب پاکستانی جمہوریت کے دیوانوں کی بات کرتے ہیںیہ تُرکی کی عوام کیطرف سے فوجی بغاوت کو کچلنے پر بہت خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔
جبکہ پاکستان میں بھی اب تک چار مارشل لاز لگ چکے ہیں اور جتنی ترقی آمریت کے دور میں ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی جبکہ اس کے بر عکس جمہور ی دور میں کرپشن اور لاقانونیت بڑھی ہے ۔جمہوریت کے چمپنیوں کو ڈیوڈ کیمرون کی طرح ریفرنڈم میں شکست کے بعد استعفیٰ جیسی مثال پر عمل کرنا چائیے ۔تاکہ جمہور یت پروان چڑھ سکے۔
تحریر : صہیب سلمان