تحریر: علی عمران شاہین
وزیر اعلیٰ پنجاب کا دورہ ترکی مکمل ہو گیا جہاں انہو ں نے صدر و وزیر اعظم سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔رجب طیب اردوان سے ہر طرح کی چاہت کا اظہار کیا۔یہ سب اس لئے تھا کہ ترک عوام نے اپنے صدر اور ان کی حکومت کے دفاع میں وہ عظیم قربانی دی کہ جس کی تاریخ انسانی میں مثال ملنا مشکل ہے۔ہمارے حکمران و سیاستدان بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ ان کے عوام بھی ان کی خاطر بس ایسے ہی سر کٹائیں اور جان کی بازی لگائیںلیکن انہیں یہ سمجھنے کی توفیق نہیں کہ ترک عوام نے یہ سب کیوں کیا تھا۔اگر ہمارے لوگوں نے یہ سب سمجھنا ہے تو ہم انہیں ترکی کے صدر کی کچھ باتیں اور کارنامے سناتے ہیں کہ وہ بھی اس راہ کی روشنی پا سکیں۔
”اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں’فتح ایمان والوں کی ہی ہوگی’ہم انسانوں کے سامنے نہیں’ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں۔بندوں کی غلامی کرنے والے (امریکی ریاست)پینسلوانیہ میں ہیں’ان کی اوقات یہ ہے کہ وہ ابھی تک بغیرشرمندہ ہوئے اوربغیر اکتائے وہاں سے اس ملت کی توہین کررہے ہیں۔”ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے 22 جولائی 2016ء کے روز یہ الفاظ ملکی دارالحکومت انقرہ میں نمازِ جمعہ کے بعد اپنی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہے تو سامنے بیٹھے ہزاروں لوگوں نے ان کے ساتھ یک زبان ہوکر متحدومنظم رہنے کاعہدکیا۔
ترکی کے لیے 15 جولائی 2016ء کی رات ایک عجیب رات تھی جب فوج کے سیکولرباغی عناصر نے ٹینکوں ‘ بکتر بند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں سے اچانک یلغار کرکے انقرہ میں پارلیمنٹ پربمباری شروع کردی تھی لیکن اس وقت انہیں سخت ہزیمت ہوئی جب تمام ترمواصلاتی رابطے اور ذرائع کاٹنے کے باوجود گھنٹوں نہیں’ منٹوں میں لاکھوں ترک عوام اچانک سڑکوں پرآگئے ۔انہوں نے تاریخ عالم کو الٹ پلٹ کررکھ دیا۔ وہ ملکی اسلامی تشخص کے دفاع میں ٹینکوں کے سامنے لیٹے’آگ برساتی بندوقوں کے دھانوں کے سامنے کھڑے ہوگئے حتّٰی کہ گولہ باری سے جسموں کے چیتھڑے کروا لیے لیکن ملک کو دوبارہ سے لادینیت کی طرف دھکیلنے کی عالمی سازش ناکام بنادی۔ ترک عوام کی اس جرأت وبہادری اورایمان’اتحاد وتنظیم نے ایک عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
ترک صدررجب طیب اردوان بغاوت کے وقت اپنے ملک کے علاقے بحیرۂ مرمرہ کے دورے پر تھے’فوری دارالحکومت انقرہ واپس لوٹے اوراپنے عوام کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس بغاوت کو کاٹنے کا اعلان کردیاجس کی جڑیںامریکہ میں تھیں ،جہاں ان کے اپنے ہی ملک کا شہری فتح اللہ گولن ‘ امریکی امداد وشہ پریہ شرارت بپاکررہاتھا۔27 اپریل 1961ء کو پیدا ہونے والے فتح اللہ گولن کاخاندانی پس منظر تواسلامی ہی ہے ۔اس نے بچپن سے ہی دین کی تعلیم حاصل کی لیکن اس نے اس تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے خود ساختہ عقائد اورنظریات تشکیل دے کر ان کی تبلیغ و تشہیر شروع کی۔ گولن کے نظریات سمجھنے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے۔اس کاکہناہے کہ یہودی اور عیسائی چونکہ اہل کتاب ہیں’کسی صورت اہل کتاب مسلمانوں کے دشمن یامخالف نہیں ہو سکتے’تمام اہل کتاب حق پرہیں اور وہ بھی جنت میں ہی جائیں گے۔ اسی بنیاد پر وہ پوپ سے ملتاہے۔
اس نے 2010ء میں ترکی کی جانب سے غزہ کے محصور فلسطینیوں کی مدد کے لیے بھیجے جانے والے فریڈم فلوٹیلا کی بھی مخالفت کی تھی کہ یہ اسرائیلی حکومت کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کیوں بھیجاگیاتھا۔ فتح اللہ گولن نے ترکی میں اپنی ذہانت و قابلیت کی بنیاد پرتعلیم و تبلیغ کے سلسلہ کی بنیاد رکھی اور پھر ملک وبیرون ملک ایک ہزار سے زائد سکولز اور دیگر اعلیٰ تعلیمی ادارے بنائے۔اس نے جدید سائنسی تعلیم کو بھی باقاعدہ عبادت الہٰی قرار دے دیا تھا جس کے باعث اسے ترکی میں مخصوص طبقے اور بیرونی دنیا سے خوب پذیرائی ملتی رہی ہے۔1999ء میں اس نے علاج کے بہانے ترکی چھوڑ کر امریکہ میں سکونت اختیارکی جہاں اسے سینکڑوں کنال پرپھیلاوسیع وعریض محل رہائش کے لیے دیاگیااوریوں اس کے بعد اس نے وہیں سے بیٹھ کر ترکی اور دیگرملکوں میں اپنے تعلیمی نیٹ ورک کوپھیلانا اور چلاناشروع کیا۔اس کے تعلیمی اداروں سے فراغت حاصل کرنے والے لوگ ہرشعبۂ زندگی میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے توانہوں نے بالآخر وہی باغیانہ کام کیا جس کے لیے انہیں تیار کیاجارہاتھا’یعنی ترکی کو دوبارہ سیکولرازم کی راہ پر ڈالنا…!۔
15جولائی2016ء کی شب اسی کے تیار کردہ لوگوں نے شب خون ماراتوترک عوام نے بھی خوب خوب جواب دیا۔ اب تک 60ہزار لوگ جو سرکاری ملازمین و افسران تھے’ کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے۔جب بغاوت کچلی گئی تو ترک حکومتی عہدیداران نے کھل کر کہاکہ سازش کے پیچھے امریکہ ہے۔امریکہ خود اس مخصوص صوفی فلسفے کا سب سے بڑا پرچارک ہے جس پر گولن عمل پیرا ہے اور اس کی تبلیغ کررہاہے،کیونکہ یہ صوفیانہ فلسفہ حقیقی اسلام کی ضد ہے۔بغاوت کی ناکامی کے بعد ترک صدرنے امریکہ سے مطالبہ کردیا کہ فتح اللہ گولن کو ان کے حوالے کیاجائے ‘ اگر ایسانہ کیاگیا تو یہ امریکہ کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔امریکہ نے جواباً گولن کے خلاف ثبوت طلب کیے تو ترکی نے ”ترکی بہ ترکی” جواب دیتے ہوئے کہا ‘ امریکہ نے جب گوانٹاناموبے میںبے گناہ لوگوں کو قید میں ڈالاتھا’ توکیا اس نے ثبوت دیکھے یاطلب کیے تھے…؟
امریکہ جیسے ملک کو مسلم دنیا کاکوئی ملک یوں ”ترکی بہ ترکی” جواب دے گا؟کیاآج کی دنیامیں اس کا تصور کیا جا سکتاہے؟ ظاہرہے، ہرگزنہیں ۔لیکن رجب طیب اردوان نے یہ سب بھی کر کے دکھادیا ہے۔اسی لیے تواسرائیلی اور صہیونی میڈیاانہیں عصرحاضرکاصلاح الدین ایوبی قرار دیتاہے۔رجب طیب اردوان کے لیے ان کے عوام بلاوجہ مرنے مارنے پر تیار نہیں ہوئے تھے۔آج کے ترک صدررجب طیب اردوان انتہائی غربت و عسرت میں پل بڑھ کر جوان ہوئے ۔ وہ شربت اورنان بیچ کر گزاراکرتے رہے۔ انہوںنے انتہائی نچلی سطح سے آکر ملک کانقشہ ہی بدل دیا۔ 12سال کے قلیل عرصہ میں یورپ کے مردبیمارکا علاج کیا اور اسے دنیاکی 18ویں بڑی معیشت بنادیا۔ ملک میں اسلام اور مسلمانوں پرعائد انتہائی ظالمانہ پابندیاں ختم ہی کرڈالیں۔ ہر لمحہ اسلام اورمسلمانوں کے دردمیں ڈوبے اوران کی عزت وفتح کے خواب دیکھنے اور اس کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ،انتہائی خوبصورت آواز میں تلاوت کی مہارت رکھنے والے رجب طیب اردوان نے دنیاکے کونے کونے میں مظلوم ومقہور مسلمانوں کے حق میں صرف آوازحق بلند کرناشروع نہیں کی بلکہ ان کی لامحدود عملی مدد بھی شروع کردی۔غزہ کے محصورومقہور مسلمانوں کے لیے فریڈم فلوٹیلا کی صورت میں اسرائیل کی پروانہ کرتے ہوئے امدادی بیڑہ بھیجا۔بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان سے محبت کرنے والے بزرگوں کو پھانسیاں دی گئیں تو پاکستان سے بھی زیادہ احتجاج ترکی نے کیا اوراپناسفیربنگلہ دیش سے واپس بلالیا۔
آج کا ترکی اس وقت دنیامیں سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کررہاہے۔ اس کام پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ اب توترک صدر نے شامی مہاجر مسلمانوں کوملکی شہریت تک دینے کا اعلان کیاہے جو ناقابل تصورفیصلہ ہے۔یہ ترک صدرہی تھے جنہوں نے ملک میں اسلامی تعلیم کو بڑے پیمانے پرفروغ دیاہے۔ بی بی سی ورلڈکے نمائندے نے ترکی کے حوالے سے20 جولائی2016ء کو اپنی رپورٹ میں لکھا”صدر رجب طیب اردوان نے 2002ء میں اقتدار میں آنے کے بعدسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیم کے پھیلاؤ کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ رجب طیب اردوان کے دورِحکومت میں مذہبی سکول جنہیں ترک زبان میں ”امام ہطپ” کہا جاتاہے’ میں رجسٹریشن میں90فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ طیب اردوان ہمیشہ کہتے ہیں’ وہ ایک نیک نسل کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔طیب اردوان نے 1997ء کے فوجی انقلاب کے بعد بند کیے جانے والے سکولوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی ۔وہ کہاکرتے ہیں کہ ان سکولوں کو بند کرکے ترکی کی قلبی شریان کو بند کر دیا گیا ہے۔”
وہ ترکی جہاں کل تک خواتین کے سرڈھانپ کرکوئی ملازمت کرنے حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں داخل ہونے پربھی پابندی تھی’ آج وہیں ترک صدر اردوان کی حمایت میں لاکھوں انتہائی باپردہ خواتین میدان میں کھڑی ہیں۔ شب خون کی کوشش عوام نے جب ناکام بنائی تھی تو ترکی میں دنیانے نمازفجر کے وقتعجیبنظارہ دیکھا ۔ بغاوت ناکام بنانے کے بعد لاکھوں لوگ جابجا سڑکوں پر نماز فجر باجماعت ادا کررہے تھے۔ اس سے قبل سبھی کی زبان پرتین نعرے تھے۔بسم اللہ’ لاالٰہ الااللہ اور اللہ اکبر۔
ایک ایساملک جہاں 80سال تک اہل اسلام پر سخت ترین پابندیاں عائد رہی ہوں اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہرفرعونی ونمرودی حربہ آزمایا جاتا رہا ہو ‘ کیااس کے حوالے سے ایسا سوچاجاسکتاتھا کہ 4نسلوں بعدوہی قوم ایک بار پھر یوں اسلام سے والہانہ انداز میں مرمٹنے کے لیے نکلے گی لیکن یہ سب کچھ دنیانے دیکھ لیا۔رجب طیب اردوان نے لادینیت چھوڑ کر دین سے محبت اور اسلام پر عمل کی بنیاد پر قوم کو مجتمع کیاتھا۔ آج ان کی قوم نے اس کاصلہ بھی دے دیا۔ نصرت الٰہی کے مناظر اور فوز و فلاح کے راستے بھی سب نے دیکھ لیے۔ اللہ کرے’ یہ سب باقی عالم اسلام کو بھی سمجھ آجائے۔
تحریر: علی عمران شاہین