سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف سوشل میڈیا میں الزامات عائد کرنے پر اسلام آباد ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کو اندراج مقدمہ کے لیے درخواست دائر کردی گئی ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے علاوہ ملک بھر میں مختلف پولیس سٹیشنز میں بھی سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواستیں جمع کروائی جا رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک غیرملکی پروڈیوسر یا بلاگر پاکستان میں کیا کر رہی ہیں اور پاکستان کی اندرونی سیاست میں کیوں دخل دے رہی ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی نے ٹوئٹر پر بتایا ہے کہ انہیں پاکستان کی ایک جمہوری جماعت کی طرف سے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جن کے متعلق، بقول ان کے، ”ثبوت موجود ہیں”۔
پاکستان میں امریکی دستاویزی فلم پروڈیوسر، بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف اس وقت ٹرینڈ چلنا شروع ہوئے جب سنتھیا ڈی رچی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لاہور میں ماڈل عظمیٰ خان کے واقعے کے بعد ٹوئٹ کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اس سے انھیں وہ کہانیاں یاد آ رہی ہیں کہ بے نظیر بھٹو اس وقت کیا کرتی تھیں جب، بقول رچی، ان کے شوہر آصف علی زرداری ان سے بیوفائی کرتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ایسے کلچر کی مخالفت کیوں نہیں کرتیں؟ کیوں کبھی مردوں کو جوابدہ نہیں کیا جاتا؟ انصاف کا نظام کہاں ہے؟
اس معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے شدید ردعمل آیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شکیل احمد عباسی ایڈوکیٹ نے ایف آئی اے اسلام آباد سائبر کرائم سیل کو درخواست جمع کروائی ہے جس میں انہوں نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
شکیل احمد عباسی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر کی شہادت کے تیرہ سال بعد ایسے الزامات کوئی سازش لگتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس سنتھیا ڈی رچی کا کوئی اتہ پتہ موجود نہیں ہے۔ لہذا، انہیں ڈھونڈا جا رہا ہے، تاکہ انہیں سمن کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاتون جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں متنازعہ باتیں کیوں کررہی ہیں؟
قانون کیا کہتا ہے؟
اس بارے میں ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر اور سائبر کرائم سے متعلق قوانین بنانے میں شامل عمار جعفری نے کہا کہ اس بارے میں سائبر قوانین میں موجود ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پر بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے اور کردار کشی کرتا ہے تو اس کے خلاف ایف آئی اے باقاعدہ کارروائی کرتی ہے اور ایسے شخص کو جیل کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سائبر قوانین سے متعلق کیونکہ ایف آئی اے ہی تفتیشی ادارہ ہے۔ لہٰذا، اگر ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں تفتیش کے بعد جرم ثابت ہو، تو اس اکاؤنٹ کو معطل کروانے کے لیے براہ راست ٹوئٹر کی انتظامیہ سے بھی رابطہ کرسکتی ہے۔
عمار جعفری کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن ایک مرحوم سیاسی شخصیت کے بارے میں اس طرح کی بیان بازی کسی صورت درست نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے ٹوئٹس کے ذریعے نفرت پھیلائی جارہی ہے اور ان کے حمایتیوں کو اشتعال دلایا جارہا ہے جو کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس پر ایف آئی اے کو فوری ردعمل دینا چاہیے۔
سنتھیا ڈی رچی ہیں کون؟
سنتھیا ڈی رچی کے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ ای ٹریبون، دی نیوز انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا میگزین کے لیے لکھتی ہیں، جبکہ میڈیا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک چینل بھی موجود ہے جس پر پاکستان کے مختلف مقامات پر ان کی بنائی گئی دستاویزی فلمیں موجود ہیں جن کے ذریعے پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعد ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے جن میں بیشتر پاکستانی ہیں، ٹوئٹر ہینڈل پر ان کی پاکستانی لباس اور زیورات میں ملبوس ایک تصویر لگی ہوئی ہے۔
ٹوئٹر پر ان کی بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس کے بعد ان پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور وہ بیشتر الزامات کے خود جواب دے رہی ہیں۔
ٹوئٹر پر انہوں نے ایک پول بھی شروع کروایا ہے جس میں انہوں نے عوام سے پوچھا ہے کہ سب کم کرپٹ کون ہے؟ چار خواتین کے ناموں میں شیری رحمان، بشریٰ گوہر، مریم اور اپنا نام گوری جاسوس لکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے تنقید کے بعد سنتھیا نے بعض دھمکی آمیز ٹوئٹس کے سکرین شاٹس بھی شئیر کیے ہیں۔
ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مبینہ طور پر پاکستان کے فوجی اہلکاروں کی کئی تصاویر بھی موجود ہیں؛ جب کہ ان کی تازہ ترین تصویر راولپنڈی میں تعینات ہونے والے خواجہ سرا ریم شریف کے ساتھ راولپنڈی میں بنائی گئی ہے۔
ان کے حوالے سے کچھ لوگ انہیں پاکستان فوج سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی فوجی اہلکاروں کے حوالے سے کی جانے والی مثبت ٹوئٹس پر انہیں پاکستانی حساس اداروں کے پراجیکٹ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ لیکن، سنتھیا اس بارے میں لوگوں کو براہ راست جواب دے رہی ہیں جن میں ان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی یونیفارم فورسز کے ساتھ ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی پہلی بار ایسے کسی معاملہ میں ملوث نہیں ہوئیں بلکہ ماضی میں صحافیوں سے بھی ان کی سوشل میڈیا پر جنگ ہوچکی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی حمایت میں ہزاروں افراد نے ٹوئٹس کیے اور نئے ٹرینڈز بنا دیے۔
سنتھیا کے بارے میں ماضی میں کئی بار ٹوئٹر پر ان کے مدمقابل آنے والے فرحان ورک کہتے ہیں کہ اس خاتون کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کون ہے اور پاکستان میں کیا کر رہی ہے؟ لیکن ایک بات بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس کا بولنا نہیں بنتا۔ ہم سیاسی جماعتوں کے طور پر کیا کرتے ہیں کیا کہتے ہیں، اس میں کسی غیرملکی کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے حق میں ٹوئٹس پر فرحان ورک نے کہا کہ بہت سے پاکستانی آج بھی کالونیل مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہیں جس میں ایک گوری نے پاکستان کے حق میں بیان دیدیا تو اس کی غلط اور صحیح کسی بھی بات پر اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونگے۔
ایف آئی اے کیا کر رہی ہے؟
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ وقار چوہان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بارے میں درخواست موصول ہوئی ہے جس متعلق قانونی رائے جاننے کے لیے ہم نے درخواست اپنے لیگل سیکشن کو بھجوا دی ہے۔ لیگل سیکشن کی رائے آنے کے بعد اس بارے میں کوئی کارروائی کا آغاز کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کی کردار کشی کے بارے میں قوانین موجود ہیں اور سائبر کرائم لا کے سیکشن 20 کے مطابق اس سلسلہ میں ایکشن لیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی بھی بات لیگل سیکشن ہی بتا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی غیرملکی پاکستان میں موجود ہو یا باہر، پاکستان کے قوانین کا اطلاق ان پر ہوتا ہے، سنتھیا ڈی رچی کہاں پر ہیں اس بارے میں وقار چوہان نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
سنتھیا کے ٹوئیٹ پر پیپلز پارٹی اور سماجی رہنماؤں کا ردعمل
سنتھیا کی ٹوئیٹ پر اب تک ہزاروں ٹوئیٹ کیے جاچکے ہیں اور گذشتہ رات یہ معاملہ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ کر رہا تھا۔
اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شیریں رحمٰن نے ٹوئیٹ کیا اور کہا کہ وہ عموماً اس طرح کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتیں مگر ”یہ بدنیتی پر مبنی بہتان ہے جس کی بنیاد سراسر جھوٹ پر ہے”۔ اس طرح کی باتوں کو شہید وزیر اعظم سے منسلک کرنا جو خواتین کی حقوق کی علمبردار تھیں درحقیقت اس ‘بوٹ ہینڈل’ کی مصنفہ کے کردار کی وقعت کم کرنے جیسا ہے۔
سماجی کارکن ماروی سرمد نے ٹوئیٹ کی کہ پارلیمنٹ کو اس بارے میں سوال اٹھانا چاہیے کہ ایسے غیرملکیوں کو کون فنڈز دے رہا ہے جو پاکستان کو گالیاں دے رہے ہیں۔ ایسے فنڈز کون دیتا ہے؟
گلالئی اسمٰعیل نے کہا کہ اس نے تمام حدود پار کرلی ہیں۔ اس کو کون لیکر آیا ہے؟ کون فنڈ دے رہا ہے؟ اور پاکستانی سماجی رہنماؤں پر کون حملے کر رہا ہے؟ اس کو کون استعمال کر رہا ہے؟ پارلیمان کو اس کی مکمل تحقیق کرنی چاہیے۔ اس کے لیے اب مزید برداشت نہیں ہونی چاہیے۔
فلم پروڈیوسر سرمد سلطان نے کہا کہ 1951 میں پاکستانی عوام سیاستدانوں کی اتنی عزت کرتی تھی کہ منتخب وزیراعظم کو قتل کرنے کیلئے ایک افغانی کو پیسے دینے پڑے، 2020 میں عوام سیاستدانوں کی اتنی عزت کرتی ہے کہ انکو گالیاں دینے کیلئے ایک امریکی خاتون کو پیسے دینے پڑے، عوام ٹیکس کیوں دیتے ہیں؟
دیگر جماعتوں کے سیاست دانوں اور سماجی رہنماؤں نے بھی سنتھیا ڈی رچی کے ان ٹوئٹس کی مذمت کی ہے۔